نئی دہلی۔فیسوں میں اضافہ کے پیش نظر جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں پچھلے کچھ دنوں سے طلبہ کے جاری احتجاج کی وجہہ سے احتجاج کررہے طلبہ کو نشانہ بنائے جانے کی تصویریں سوشیل میڈیاپر تیزی کے ساتھ وائیر ل ہورہی ہیں۔ ایک معمر عورت کی تصویر بڑے پیمانے پر شیئر کی جارہی ہے۔
اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس جوان جبری طور پر اس عورت کو پولیس گاڑی میں بیٹھا رہے ہیں۔
جو لوگوں نے یہ تصویر شیئر کی ہے ان کا دعوی ہے کہ وہ جے این یو طالب علم ہے۔
A final year student from JNU got arrested. Fascist Modi#ShutDownJNU #JNUWallOfShame #JNUFreebies #JNUProtests https://t.co/AAEq6Imtf8
— Amaresh Ojha 🇮🇳 (@Amreso99) November 18, 2019
مذکورہ تصویر فیس بک پر بھی شیئر کی گئی ہے۔ انگلش کے علاوہ ہندی میں بھی یہ دعوی شیئر کیاگیاہے۔مندرجہ ذیل پوسٹ کو پہلے ہی 600سے زائد مرتبہ شیئر کیاگیا ہے۔
سوشیل میڈیاصارفین نے مذکورہ تصویر کو حیران کن پیغامات کے ساتھ شیئر کیاہے۔
جس میں سالوں سے کیمپس میں رہ کر یونیورسٹی طلبہ پر وقت گذاری کا بھی ان میں الزام عائد کیاگیا ہے
واٹس ایپ پر بھی یہ تصوئیر مزاحیہ انداز میں پھیلائی جارہی ہے
Another one received from Whatsapp (Veracity unknown) of fresher in JNU😂 pic.twitter.com/Zc9wTCbPwq
— Venkitaraman TR (@ramantrv) November 19, 2019
حقیقت یہ ہے کہ یہ تصویر قدیم اور غیرمتعلقہ ہے
تصویر کے متعلق گوگل پر تحقیق کرنے کے بعد یہ بات سامنے ائی ہے کہ اس تصویر کا جے این یو طلبہ کی جانب سے جاری احتجاج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اس تصویر کو کئی نیوز ایجنسیوں نے 2019میں پیش کیاتھا۔ سپریم کورٹ کے باہر ایک احتجاج پیش آیاتھا جس میں سابق سی جی اے گوگوئی پر جنسی ہراسانی کے متعلق لگائے گئے الزامات کو عدالت عظمی کے پینل نے مسترد کردیاتھا۔
رپورٹس کے مطابق مذکورہ احتجاج کو زیادہ تر خاتون تنظیموں اور وکلاء نے منظم کیاتھا۔
الٹ نیوز کو ایک او رتصویر9مئی 2019کو ایک خاتون کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ملی ہے
In continuation of our protest against the #SupremeInjustice we are walking in Connaught Place with songs and demanding fair investigation in the sexual harassment case. #ChiefJustice #CJI #CJIRanjanGogoi pic.twitter.com/QIDRoZFQA9
— Pinjra Tod (@PinjraTod) May 9, 2019
ہمیں ڈی این اے پر بھی ایک ارٹیکل ملا جس میں عورت کی شناخت سی پی ائی لیڈر اننی راجا کے طور پر ہوئی ہے۔
لٹ نیوز کے ساتھ بات چیت میں اننی راجا نے توثیق کی سوشیل میڈیا پر شیئر کی جانے والی یہ تصویر ان کی ہے۔
انہوں نے بتایاکہ اس تصویر کو پھیلانے کا مقصد جے این یو طلبہ کی جانب سے فیسوں میں اضافہ کے خلاف کئے جارہے احتجاج کو بدنام کرنا ہے۔
اس تصویر کو دیکھنے سے ہی پتہ چلا جاتا ہے کہ جس طرح کا دعوی پیش کیاجارہا ہے وہ سراسر غلط ہے اور پولیس تحویل میں موجود خاتون جے این یو کی طالبہ نہیں ہے۔
مذکورہ تصویر مئی2019کی ہے اور چیف جسٹس آف انڈیارنجن گوگوئی کے خلاف عائد جنسی ہراسانی کے الزامات کے پیش نظر دہلی میں منعقدہ احتجا ج کے وقت کی ہے۔
اس کی ایک اورمثال حال ہی میں ملتی ہے جس میں ایک 23سالہ طالب علم کی تصویر کو سوشیل میڈیا پر یہ کہتے ہوئے شیئر کیاگیاتھا کہ 43سالہ ایک طالب علم کا جے این یو میں داخلہ ہوا ہے