شادی نہ ہونے کا مسئلہ شریعت کی روشنی میں حل

   

خواجہ رحیم الدین

ماں سے بیٹی کو جذباتی لگاؤ اور خاص سہارا ہوتا ہے اور وہ اپنی پریشانی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے، ماں کا فرض ہے کہ اس نوجوان بیٹی کے بارے میں سوچنے اور جتنی جلد ہوسکے، نکاح کا سوچے۔ وہ کونسی ایسی لڑکی ہے جس کے دل میں شادی کی خواہش نہ ہو۔ کس کے دل میں یہ آرزو نہیں ہوتی کہ وہ شادی کرے، کامیاب زندگی بسر کرے، خوشحالی، آرام و راحت ملے، کس کے سینے میں یہ خواہش ہر لمحہ تڑپتی نہیں رہتی کہ شوہر ملے دوطرفہ محبت حاصل ہو۔
شادی نہ ہونے کے کئی مسئلے ہیں، کہیں ماں باپ کی کمزوریاں بھی شامل ہیں لیکن ہم ماں باپ صرف بچوں کی کمزوریوں کو ہی گنتے رہتے ہیں، مجھے کئی خاندان والوں سے سابقہ پڑا، دیکھا کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود عقل کا استعمال کرنے سے دور رہتے ہیں۔ ماں باپ اور لڑکے لڑکیاں چاہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ملے، اس کشمکش میں عمر ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے، ڈاکٹر چاہتا ہے کہ اسے ڈاکٹر ہی ملے، یہ بھی دیکھا اور سنا گیا کہ لڑکیاں پڑھی لکھی نہ ہونے اور رنگ بھی دھیما ہونے کے باوجود وہ چاہتی ہیں کہ پڑھا لکھا خوبصورت ہیرو ملے۔ عرض ہے ہم ماں باپ اپنے لڑکیوں میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی درس بھی دیا کریں۔ سرسید احمد خاں نے کہا تھا کہ لڑکیوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کریں اور آج کے ماحول کے مطابق انگریزی سے بھی واقفیت رکھیں۔ پڑھی لکھی لڑکی قبول صورت ہے۔ عمر 33 سال کے اوپر خاندانی ہونے کے باوجود رشتے آتے ہیں لیکن جمتے نہیں۔ اچھی جاب بھی کرتے ہیں۔ ان حالات میں ہر لڑکی کی خواہش رہتی ہے کہ اس کا گھر ہو، اولاد ہو۔
میڈیکل پوائنٹ سے جیسے جیسے عمر بڑھے گی ، اولاد ہونے میں اتنا ہی مسئلہ درپیش ہوگا۔ ان حالات میں ہر لحاظ سے لڑکی تھک جاتی ہے، کئی لوگوں کی گندی نظروں سے گذرنا پڑتا ہے۔ خوددار لڑکی نہ بہکتی ہے اور نہ بہکنا چاہتی ہے، پاک بیٹی پاکیزہ زندگی چاہتی ہے، نکاح کرکے زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ ان حالات میں مایوسی نااُمیدی ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے۔ وہ پاک زندگی چاہتی ہے لیکن حاصل نہیں ہوتی ، اگر وہ بہک جائے گی تو پھر عذاب ملے گا۔ آج یہ ہر دوسرے تیسرے گھر کا مسئلہ بن گیا ہے، اس میں گھر والوں کا غیرلچک دار رویہ بھی ہے۔
لوگ اپنی توقعات سے کم کوئی رشتہ قبول ہی نہیں کیا کرتے اور دوسری طرف لڑکے والوں کے ڈیمانڈ ان کا تو ذکر ہی عبث ہے، چند کہتے ہیں ہم جہیز کے قائل نہیں لیکن ساز و سامان اس جہیز سے زیادہ مانگ لیتے ہیں۔ مسجد میں سب کے سامنے کہتے ہیں کہ ہم ایک پیسہ بھی نہیں لیں گے۔ اللہ اکبر۔ہم غیرشرعی طور طریقوں کو استعمال کررہے ہیں، نکاح پاکیزہ حسن ہے، اس کو ہم فضول خرچی میں برباد کررہے ہیں۔ نکاح آسان طریقے سے ہو، زیورات کا لینا، مہندی، پاؤ میز کی رسم، سانچق، جمعگیاں اور کئی رسومات کرتے ہیں، نوٹوں کا اُچھالنا، یہ تمام رسومات غیرشرعی ہیں، اگر اتفاق سے دولت مند ہو تو اپنے بچوں کے نکاح کو آسان کرلو، وہی دولت ضرورت مند کیلئے خرچ کریں، اس میں اللہ کی خوشنودی ہے۔ ہاں چند اتنے پاکیزہ ہوتے ہیں، نہ پیسے کی مانگ ہوتی ہے اور نہ سامان کی، سیدھی سادھی شادی پر قناعت کرتے ہیں۔ ماشاء اللہ ۔
ایک شادی ایسی بھی دیکھنے میں آئی، دلہا دلہن پڑھے لکھے تھے، تقریب نکاح میں ہوم منسٹر موجود، حضرت قطب صاحب قبلہ (درگاہ شاہ خاموشؒ) ، حضرت فرید باشا صاحب قبلہ، کلکٹر مورتی، بیرسٹر غوث، نواب عابد علی خاں صاحب اور دوسرے کئی معزز حضرات آپ تمام صرف آدھی پیالی جائے پر اکتفا کیا۔ ماشاء اللہ، کیا آج اسی طرح کے نکاح کو اپنایا نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں ضرور اپنا سکتے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔ بلاشبہ شہوت ایک فطری جذبہ ہے جو اللہ نے ہر انسان و حیوان میں ودیعت کر رکھا ہے، شیطان جذبہ شہوت کو بڑھانے اور گناہوں کی دلدل میں دھنسانے میں اِیڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔ماں باپ کو چاہئے کہ دستیاب رشتوں میں سے جلد کسی ایک اچھے دیندار کا انتخاب کرے۔ قرآن حکیم میں شادی شدہ مردوں اور عورتوں کو اس لئے محصن اور محصنات کہا گیا ہے کیونکہ وہ شیطان کے حملوں کے خلاف قلعہ بند ہوجاتے ہیں، اسی طرح کہتے ہیں روزہ شہوت کو ٹھنڈا کرتا ہے، پریشانی میں لڑکی قرآن پاک کی تلاوت کو اپنا معمول بنالیں۔ شادی نہ ہونے کے مسئلہ پر ہر کوئی اللہ سے دعا کرتے رہیں، دعاؤں کو اپنا معمول بنالیں۔

تھوڑی سی عبادت بہت سا صلہ دیتی ہے
اور تھوڑی سی دعا عرش بھی ہلا دیتی ہے
اپنی ساری پریشانیاں رو رو کر اللہ کے سامنے بیان کریں، بس مانگ لو رشتے آسانی سے طئے ہوجائیں گے، دعائیں، مستجاب ہوں گی۔ انشاء اللہ
وہی تو ہے جس نے اتنے اندرونی اور بیرونی شیطانی حملوں کے باوجود ہم کو پاکیزگی کی راہ سے ہٹنے نہیں دیا ورنہ انسان جیسی کمزور ہستی کی کیا مجال۔ جب بندہ اللہ کے ساتھ تعلق میں لگتا ہے تو آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ مختلف طریقوں سے ہمارے اندر سکون، اطمینان اور آسودگی القا کرتے ہیں، اس کے بعد حیات ِطیبہ کا دور شروع ہوتا ہے، یہ اللہ نے فرمایا ہم کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو، رشتہ جمے گا ضرور جمے گا۔ (آمین)
ایک ہماری چاہت ہوتی ہے اور ایک خدا کی چاہت ہمیشہ کا سکون تو خدا کی چاہت میں ہے۔ اپنی رضا کو فنا کردینے میں وہ لذت ہے جو اس کے حصول میں بھی نہیں۔
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان اتنا بااختیار ضروری ہے اگر ہم چاہے تو اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکتے ہیں۔ ہم اپنی منفی سوچ سے چھٹکارہ پاکر مثبت انداز فکر اپناتے ہوئے اور اُداسی اور تفکرات میں ڈوبے رہنے کے بجائے اچھی امیدوں کے سہارے زندہ رہ کر اپنی لڑکی کو خوشگوار زندگی میں ڈھال سکتے ہیں۔ شادی میں کامیابی حاصل کرنے کی شرط صرف کوشش اور ذرا سی محنت درکار ہے۔ اگر ہمارا شمار قنوتیت پسند مایوس، تفکرات و منفی خیالات میں ڈوبے ہوئے افراد میں ہوتا ہے تو یقین مانیئے کہ ہم اپنی جان کے خود دشمن ہیں۔ جدید ترین تحقیق کے مطابق وہ افراد جو زیادہ تر خوش و خرم رہتے ہیں، پریشان اور متفکر رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ طویل مدت تک جیتے ہیں اور اپنے اور بچوں کے کاموں میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ کہتے ہیں بیمار، بیماری میں اللہ سے دعا مانگتا ہے، تو اللہ تبارک تعالی ضرور قبول کرتے ہیں۔
کتنا سکون دیتا ہے اس جگہ بیٹھ کے رونا
جہاں اللہ کے سواء کوئی سننے والا نہ ہو
ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بیٹی کی فکر مجھے لگی ہوئی ہے، رشتہ جم نہیں رہا ہے، جلد کرنا چاہتا ہوں، شریعت کی روشنی میں، کیا حکم ہے، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دن اور رات میں پانچ نمازیں پڑھو، اس نے پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے، رسول اللہ فرماتے ہیں ’’نہیں‘‘۔ (بخاریؒ) دیہاتی نے اس پر عمل کیا اور کامیابی حاصل کی۔ ماشاء اللہ
نکاح کیلئے آسان سادہ طریقہ دین اسلام میں ہی ہیں۔ لڑکیوں کی پریشانیوں کو جب ہم سنتے ہیں تو دل دہل جاتا، انسان تو کیا پتھر بھی خون کے آنسو روئے۔ رشتے طئے نہیں ہوتے اور رشتہ طئے کروانے چند لوگ رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، غالباً وہ سب یہ بھول گئے کہ یہ سب کچھ ان کی بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، پر وہ ایسا کسی کے ساتھ نہ ہو۔ لڑکیاں صرف اپنے گھر کی ہی نہیں، ہر صاحب اولاد کی عزت ہوتی ہیں۔ محبت سے محبت اور نفرت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
کسی کو کانٹوں سے چوٹ پہنچی
کسی کو پھولوں نے مار ڈالا
جو اس مصیبت سے بچ گئے تھے
اصولوں نے مار ڈالا
ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ ہمارے مسائل جلد سے جلد حل کردے اور ہمارے پسندیدہ رشتے طئے ہوجائیں۔ اللہ ہمیں نیک راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین