شاہین باغ کے طرز پر بنگلور میں ایک ماحول بنایاجارہا ہے

,

   

بلال باغ نگر میں کسی بھی مقام پر کم سے کم ایک سو لوگ جمع ہوتے ہیں اور شام ہوتے ہوتے ایک ہزار تک ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔

بنگلورو۔خواتین کی چوکسی دہلی کے شاہین باغ سے متاثرہوکر بنگلور شہر میں پچھلے تین دنوں سے نئے شہریت قانون کے خلاف محاذ آرائی پر لگی ہوئی ہے۔

ایسٹ بنگلورو کی مصروف ترین ٹانیری روڈ پر بلال مسجد کے قریب میں‘ بہت سارے راستے پر روک کر ایک مقام پر شہہ نشین تیار کیاگیاہے۔مذکورہ مظاہرین نے بلال باغ کی چوکسی اور شاہین باغ سے منسوب کیاہے۔

ہفتہ سے شروع ہوئے احتجاجی دھرنے میں پہلے سے ان تمام کے لئے جگہ فراہم کی گئی ہے جو مانتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون کو ہٹادینا چاہئے۔

مصروف ترین علاقے میں جہاں پر دوکانیں اور ورکشاپس ہیں‘ خواتین بڑے خیمہ میں بیٹھے ہیں اورنعرے لگارہے ہیں اورمقررین کی تقاریر سن رہے ہیں۔

قریب کی مسجد سے جیسے ہی اذان کی آواز بلند ہوتی ہے تو مائیکرفون بند کردیاجاتا ہے۔ ہفتہ کے روز معمولی شروعات کے بعد بلال باغ میں تمام شعبہ حیات کی خواتین مذہبی خطوط سے بالاتر ہوکر احتجاج کی حمایت میں آگے آرہی ہیں

۔ ان میں سے کئی لوگ چوبیس گھنٹوں تک دھرنے پر ہیں وہیں دوسرے آتے جاتے رہتے ہیں اور دیگر کئی کلاس اور کام کے بعد آتے جاتے رہتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی مقام پر اعلان کے بعد کم سے کم 100لوگ جمع ہیں‘ جہاں شام تک 1000لوگ اکٹھا ہورہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی اور ہوم منسٹر امیت شاہ اور شہریت قانون کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ایک پرجوش برقعہ پوش نوجوان خاتون وارثی نے کہاکہ ””یہاں پر کوئی لیڈران نہیں ہے۔ہر کوئی منتظم اس تحریک کے لئے ہے“۔

وارثی نے نریندر مودی کا مذاق آڑاتے ہوئے کہاکہ ”ہم ایک اور لیڈر ایسا نہیں چاہتے جو منتخب ہونے کے بعد ایک ’چوکیدار‘ بنے اور لوگوں کے لئے کچھ نہیں کیاہے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ”جو شاہین باغ کی عظیم عورتیں کررہے وہ ہمارے لئے حوصلہ ہیں۔ لہذاشاہین باغ کی طرح احتجاج غیر معینہ مدت کے لئے رہے گا“۔

انہوں نے کہاکہ ”خواتین کی طرف سے رضاکارانہ طور پر اٹھایاگیاقدام ہے جو کسی پر منحصر نہیں ہیں‘ کسی سیاسی جماعت پر بھی ان کا انحصار نہیں ہے۔یہ ہماری لڑائی ہے جس سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے“۔

ایس یو سی ائی کی کل ہند مہیلا سنسکرتی سنگھاٹن سے وابستہ شوبھا نے کہاکہ احتجاجیوں نے پولیس کی اجازت کا انتظار نہیں کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ ”لوگوں کو اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرنے کے لئے پولیس کی اجازت کو حکومت نے کافی مشکل کردیاہے۔

لہذا ہم یہاں پر اکٹھا ہوئے اور احتجاج شروع کردیاہے“۔ مقامی پولیس ہر تھوڑی دیر کے بعد بلال باغ پہنچتی ہے اور اس بات کی جانکاری حاصل کرتی ہے کہ احتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین کے ساتھ سب ٹھیک تو ہے۔

مسلم اکثریتی والے علاقے سے مل رہے تعاون کی وجہہ سے بنیادی سہولتوں کے انتظام میں عورتوں کو کافی مدد مل رہی ہے۔

شوبھا نے کہاکہ ”ہم نے عبادت کے لئے ایک کمرے کا انتظام کیاہے‘ جہاں پر کھانے کا پکوان‘ پانی اور واش رومس بھی ہیں جو مقامی لوگوں کی مدد سے ممکن ہوسکاہے“

۔علاقے کے لوگ کو خواتین کے ساتھ اظہار یگانگت کے لئے یہاں پرپہنچے ہیں وہی رات میں نگرانی کاکام بھی کررہے ہیں۔

شوبھا نے کہاکہ”ہمیں کسی قسم کا ڈر نہیں ہے کیونکہ ہر وقت ہمارے بھائی یہاں پر ہماری حفاظت کے لئے موجود ہیں“۔طلبہ جہدکار صادق جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کا ایک معروف چہرہ ہے وہ بھی اس دھرنے میں شامل ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”جب تک یہ ختم نہیں ہوجاتا میں یہاں سے کہیں جانے والا نہیں ہوں۔ہم تمام یہاں پر اپنی ماؤں او ربہنوں کے ساتھ اظہار یگانگت کے لئے ائے ہوئے ہیں“۔

بنگلور میں منعقد ہونے والے مخالف شہریت قانون احتجاج میں حصہ لینے والے معمر کشمیری کورینی کمار نے قومی سطح پر جاری احتجاج کو ”دوسری جدوجہد آزادی“ قراردیاہے۔

تیونس میں انقلاب جاسمین کامشاہدہ کرنے کے بعد جس میں طویل مدت تک حکمرانی کرنے والے صدر زین العابدین بن علی کو استعفیٰ دینے پر مجبور اور عرب دنیا کو ہلا کررکھ دیاتھا کروینی کمارنے ہندوستان میں جاری احتجاج کو بھی اسی سے تعبیر کیاہے۔

کورینی نے مزیدکہاکہ ”ہم دیکھ رہے ہیں ملک بھر میں بڑی تعداد میں طلبہ او رنوجوان احتجاجی مظاہرے کی قیادت کررہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بہار عرب اور انقلاب جاسمین (2011-2012)میں مصرمیں رونما ہوا تھا۔نئی سیاسی سونچ کی یہ قیادت کرے گا‘ کیونکہ یہ خواتین سیاسی مرکزیت کو چیالنج کررہی ہیں“۔

بلال باغ کے احتجاجی دھرنے میں حصہ لینے والوں میں ایڈوکیٹ شیلا راؤ بھی شامل ہیں جولوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بتارہی ہیں جس سے انہیں احتجاج کا اختیار حاصل ہے۔

سینئر وکیل نے کہاکہ ”مرکز نے پہلے ہی دشمن قوانین لاکر بنیادی حقو ق سے انحراف او رخلاف ورزی کی ہے جو ہمیں دستور نے دیئے ہیں‘ جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہر کوئی متاثرہوگا“۔

شیلا نے مزیدکہاکہ ”ہم لوگوں کویہ بتائیں گے کہ کس طرح سی اے اے‘ این پی آر او راین پی آر ہمارے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ غیر قانونی پناہ گزینوں کی تلاش کے نام پر شہریوں کو حکومت مشکل میں نہیں ڈال سکتی ہے‘ جو پولیس کی ذمہ داری ہے“.۔