شرعًا مرنے والا اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑاوہ ’’متروکہ‘‘ کہلاتا ہے

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنا مکان اپنے بکر کو بہوش و حواس بموجودگی دیگر اولاد زبانی ہبہ کردیا اور اسی وقت مکان کے تمام دستاویزات و دیگر اہم کاغذات زید کے حوالے کردیا اور اپنا قبضہ ہٹاکر بکر کے قبضہ میں دیدیا۔ پھربعد میں زبانی ہبہ کی تصدیق کرتے ہوئے اسٹامپ پیپر تحریر کیا۔ اور اس یاد داشت ہبہ نامہ پر کچھ وارثین اور دیگر سے دستخط و ابہام حاصل کیا۔ اس وقت سے اب تک بکر ہی قابض ہے۔
اب بکر کے برادر نے ہبہ نامہ کا ذکر کئے بغیر مرحوم کی متروکہ جائداد کہہ کر ایک فتوی حاصل کیا، جسمیں ورثہ کو حصہ دیا گیا اور متروکہ تقسیم کیا گیا، جو ہبہ کی موجودگی میں درست نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعًا مرنے والا اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑا، وہ ’’متروکہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں ورثہ کے حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ شریفیہ شرح سراجیہ صفحہ ۴ کے حاشیہ میں ہے : الترکۃ ما یترکہ المیت من مملوکہ شرعًا
کالاراضی المقبوضۃ والذہب والفضۃ مضروبتین أو غیر مضروبتین وغیرھما من مملوکہ مما یتعلق بہ حقوق الورثۃ۔ فقط واﷲ أعلم
قاری محمد مبشر احمد رضوی قادری
امام العارفین‘ حضرت سیداحمدکبیر رفاعی ؒ 
آپ کا نام نامی اسم گرامی سید احمد کبیر‘ ابو العباس کنّیت اور محی الدین لقب ہے۔ آپ کے اجداد میں ایک صاحب کا نام رفاعی تھا۔ اُن کی طرف نسبت ہونے کی وجہ سے رفاعی مشہور ہوئے۔آپ مسلکاً شافعی اور نسباً حسینی ہیں۔ ولادتِ باسعادت: آپ کی پیدائش ۱۵ ؍ رجب المرجب : ۵۱۲ ھ؁ کو مقام’’ حسن‘ ‘ میں ہوئی جو عراق میں ’’اُمّ عبیدہ‘‘ کے قریب شہر ’’واسطہ‘‘ کے علاقہ میں واقع ہے۔ آپ کے والدِ محترم کا نام حضرت سید علی ؓ ہے۔ آپ کے عالمِ وجود میں آنے سے قبل سرکار دوعالم ﷺ نے آپ کے ماموں حضرت منصور بطاحی ؒ کو آپ کے پیدا ہونے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اُس لڑکے کا نام ’’احمد‘‘ رکھنا۔ اولیائے کرام میں وہ سردار ہوگا ۔
صاحبِ قلائد الجواہر نے لکھا ہے کہ آپ بڑی شان کے بزرگ گذرے ہیں۔آپ کا مقام بہت بلند اور آپ کے احوال بہت مشہور ہیں۔منقول ہے کہ آپ اُن چار بزرگوںمیں سے ہیںجو بحکم ِالٰہی ‘ اندھوںکوآنکھ ‘ کوڑیوں کو تندرست اورمُردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ ممالک اسلامیہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں آپ کی خانقاہ موجود نہ ہو۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو ارفع و اعلیٰ اور برتر و بالا سمجھو ۔ آپ ہی خالق و مخلوق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ ہیںاور آپ اللہ تعالیٰ کے بندہ ٔ خاص ‘ رسولِ معظم‘مخلوقِ الٰہی میں سب سے زیادہ کامل و اکمل اور ہادیٔ برحق ہیں۔ آپ ہی بارگاہِ رحمانیہ کا دروازہ اوردربارِ صمدیت میں سب کا وسیلہ ہیں۔ جو آپ سے مل گیا وہ اللہ سے مل گیا‘ جو آپ سے جدا ہوا وہ اللہ سے جدا ہوا۔حضور انور ﷺ کا ارشادِ اقدس ہے کہ کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا‘ جب تک کہ اُسکی کوئی خواہش اُس شریعت کے تابع نہ ہو‘ جسکو میں لیکر آیا ہوں۔آپ کے عقیدہ سے یہ واضح ہوگیا کہ اہلسنت و جماعت حق پر ہیں۔امام العارفین‘ سید العاشقین‘ حضرت سید احمد کبیر رفاعی ؒ ۶۶سال تک اس دارِ فانی میں رہکر مخلوقِ خدا وندی کی رشدو ہدایت کام سر انجام دینے کے بعد کلمۂ شہادت کا ورد کرتے ہوئے ۲۲؍ جماد ی الاولیٰ‘ ۵۷۸؁ھ‘ بروز جمعرات بہ وقت ظہر آپ نے اس دارِ فانی سے عالم ِ بقا کا سفر اختیار کیا۔