معاشرے میں ہمارا کردار قانون کی حکمرانی پر مبنی ہے۔ ہر کوئی گھناؤنے اور ہولناک جرائم کے متاثرین کے لئے انصاف مانگ سکتا ہے مگر اسی وقت انصاف عدالتی نظام سے آنا چاہئے۔ تھرور نے انڈین ایکسپریس کو یہ بات بتائی ہے
نئی دہلی۔ اس روز جب پارلیمنٹرین کا ایک بڑا حصہ جمعہ کے روز حیوانات کے ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل میں ملوث حیدرآباد پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے چار ملزمین کے انکاونٹر کی ستائش کرررہے تھے‘
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے انڈین ایکسپرس سے یہ استفسار کیاکہ خونکے لئے یہاں پرپارلیمنٹ کی کاروائی نہیں چل رہی ہے
حیدرآباد میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے متعلق آپ کیاکہیں گے؟
معاشرے میں ہمارا کردار قانون کی حکمرانی پر مبنی ہے۔ ہر کوئی گھناؤنے اور ہولناک جرائم کے متاثرین کے لئے انصاف مانگ سکتا ہے مگر اسی وقت انصاف عدالتی نظام سے آنا چاہئے۔
مکمل تفصیلا ت سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ مشتبہ مجرمین سے پولیس کو خطرہ لاحق تھا‘ فطری طور پر ان کے حصہ کے طور پر یہ حق بجانب قراردیاجائے گا۔
مگر جیسا کہ ایک اصول ہے‘ اس کو قانونی عمل کے ذریعہ خاطی کو سزادی جانے چاہئے‘ کیونکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جنگل کے قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے
تلنگانہ میں یہ دوسری مثال ہے جو فوری طور پر انصاف کے نظام کے لئے اپناگیاہے‘ کیاآپ سمجھتے ہیں اب یہ رحجان بن گیاہے؟
ہمارے پاس بربھیا (ڈسمبر16سال2012عصمت ریزی) کیس کے بعد سخت قوانین ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ ایک واقعہ کی روک تھا بھی نہیں کی جاسکی۔
جس چیز کی ہمیں روک تھام کے لئے ضرورت ہے وہ ہے ایک جامع پالیسی‘ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری پولیس کو تقویت ملی ہے۔
صنفی حساسیت کی ہمیں ایک سنجیدہ سطح کی ضرورت ہے جس کی شروعات ہمیں جماعت اول سے ہونی چاہئے۔ ہمارے بچوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نہ صرف مائیں اور دیوی ہی قابل احترام نہیں ہے ہماری لڑکیا ں بھی ہیں۔
ہماری ضرورت جو ہے وہ مکمل طور پر روکنے کی پہل پر ہونی چاہئے
کیالوک سبھا میں آپ اس مسئلے کو اٹھائیں گے؟
مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی جو فلور پر بات کرتے ہوئی میری پارٹی بھی اس میں شامل ہے‘ سخت کاروائی کے متعلق بات کرتا ہے۔ میں نہیں مانتا ہے اس کا سارا جواب یہی ہے۔
کیاآپ کو نہیں لگتا کہ قانون ساز اور انفورسمنٹ ایجنسیاں عوامی مطالبات پر اپنا ردعمل پیش کررہی ہیں؟
مجھے بہت تشویش ہے۔
یہاں تک کہ نربھیا ایکٹپر میں خوش نہیں تھا کیونکہ اس میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے لوگوں کو جونائیل جسٹس ترمیم بل میں بالغ کے طور پر پیش کرنا تھا‘اگر ہم مانیں تو اہم واقعات میں ہم خراب قانون بناتے ہیں۔
اس کی مثال عوامی ردعمل جیسی نہیں ہوتی جیسا کہ دانستہ طور ادارے جیسے پارلیمنٹ میں ہورہا ہے۔
ایساہوتا ہم نے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ ایک بحث اس کی حمایت کرتی ہے کہ انصاف میں تاخیر کی وجہہ سے اس طرح کی فوری کاروائی رونما ہوتی ہے۔کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام سست ہے‘
درکار سزا نہیں مل رہی ہے۔ میں نہیں جانتا مگر ہمیشہ خون کے لئے ایک آواز انناؤ‘ حیدرآباد‘ کتھوا (عصمت ریزی معاملات) میں ہوتی ہے۔