شہریت ترمیمی قانون کی آسام میں مخالفت

   

روش کمار
ملک میں شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کردیاگیا ہے جس کے ساتھ ہی ملک کے کئی حصوں میں بے چینی کی لہر دیکھی جارہی ہے خاص طور پر ریاست آسام میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں تو 30 کے قریب تنظیمیں سی اے اے کے خلاف زبردست احتجاج کررہی ہیں ۔ ٹاملناڈو سے لیکر دہلی میں اروند کیجریوال بھی سی اے اے کے خلاف بولنے لگے ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ پچھلے کچھ دنوں میں اس قانون کے اصول و قواعد کو لیکر بہت سارے پہلو سامنے آئے ہیں لہذا انہیں ایک ساتھ رکھ کر دیکھنے میں اس کی سیاست اور اس کے اثرات کو ہم ٹھیک سے دیکھ پائیں گے اس لئے ہم نے یہی سوچا کہ جو اس موضوع کے ماہر ہیں دانشور ہیں ان کے ردعمل اور ریمارکس کا انتظار کیا جائے تاکہ عوام کو اس مسئلہ سے جڑے تمام پہلوؤں کی جانکاری دی جائے ۔ واضح رہے کہ ڈسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کیاگیا ۔ دس جنوری 2020 کو اسے نوٹیفائیڈ کردیا گیا پھر سب بھول گئے چار سال سے زیادہ وقت لگا ہے اس قانون کے اصول و قواعد بننے اور اسے نافذ کرنے میں ، اس دوران حکومت نے پارلیمنٹ میں 8 بار اس کا جائزہ لیا ہے ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ اصول و قواعد نہ بننے پر قانون کی اہمیت ہی ختم ہوجاتی ۔ حکومت نے آج تک نہیں بتایا کہ اصول بنانے میں اتنے برس کیوں لگ گئے ۔ ان اصولوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے دیکھ کر لگتا ہو کہ ان کی تلاش کرنے کیلئے حکومت ہند کے عہدہ دار چاند پر گئے تھے اور وہاں سے واپس ہونے میں چار سال کا عرصہ لگ گیا ، تب جاکر اصول بنے ہیں اور اب نافذ ہوئے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کو چیلنج کیا گیا ہے پہلے اس معاملہ میں دیکھ لیتے ہیں کہ عدالت کہاں ہے اور الیکٹورل بانڈ کے معاملہ کی طرح یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں اٹکا ہوا ہے ۔ عدالت عظمی میں اس قانون کو غیردستوری قرار دینے کی مانگ کے ساتھ تقریباً 200 سے زائد درخواستیں داخل کی گئیں ہیں ۔ ترنمول کانگریس کی مہوہ موئترا ، کانگریس کے لیڈر جئے رام رمیش ، رمیش چینی کھلا ، مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی ، انڈین یونین مسلم لیگ ، آسام گنا پریشد کانگریس میٹی ، نیشنل پیپلز پارٹی MP آسام ، مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن آسام اور ڈی ایم کے نے درخواستیں داخل کی ہیں ۔ اکٹوبر 2022 میں یہ معاملہ اس وقت کے چیف جسٹس پوپو للت کی بنچ پر سامنے آیا حکم دیا گیا کہ اس پر قطعی سماعت چیف جسٹس کی سبکدوشی کے بعد شروع ہوگی لیکن آج تک شروع نہیں ہوئی یعنی اکٹوبر 2022 سے اس معاملہ میں کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے ۔ شہریت ترمیمی قانون میں کہا گیا ہے کہ 31 ڈسمبر 2014 تک یا اس سے پہلے پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہبی بنیاد پر ظلم و جبر کا شکار ہو کر آنے والے ہندو ، پارسی ، بدھ ، سکھ ، جین اور عیسائی مہاجرین کو شہریت دی جائے گی ان درخواستوں میں آرٹیکل 14 کی بنیاد پر حکومت کے فیصلہ ( شہریت ترمیمی قانون ) کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کا آئین کسی بھی فرد کو قانون کے سامنے برابری کا حق دیتا ہے اس سے محروم نہیں کرتا ۔ اسے ملک کے قوانین کا پوری طرح تحفظ مل سکتا ہے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس قانون کو صرف مسلمانوں کی وجہ سے چیلنج نہیں کیا گیا ہے بلکہ مذہب کو بنیاد بنانے کی وجہ سے چیلنج کیا گیا ۔ مذہب کی بنیاد پر صرف اسلام کے ساتھ اس میں بھید بھاو نظر نہیں آتا ہے بلکہ دوسرے مذاہب کے ساتھ بھی بھید بھاؤ نظر آتا ہے ۔ کچھ ماہرین نے لکھا ہیکہ ہندو مذہب کے ساتھ بھی بھید بھاؤ ہے ایک بنیاد اور ہے جس پر یہ قانون کو چیلنج کیا جارہا ہے ۔ 1955 کے شہریت قانون کا سیکشن 6(A) یا سیکشن 1985 میں ہوئے آسام سمجھوتہ کی دین ہے جس میں طے ہوا تھا کہ جنوری 1966 سے لیکر 24 مارچ 1971 کے درمیان جو لوگ آسام میں آکر بسے ہیں انہیں غیرملکی نہیں مانا جائے گا اس میں مذہب کی کوئی بنیاد نہیں تھی ۔ یہ سب کچھ ایک طویل کوشش کے بعد طئے ہوا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ 31 ڈسمبر 2014 اور اس سے پہلے جو لوگ بھی پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آئے ہیں انہیں شہریت دی جائے گی ۔ یہ بات آسام کے ایک بڑے طبقہ کو پسند نہیں آئی کہ اس تاریخ کی بنیاد کیا ہے اور کس کے ساتھ بات چیت کے بعد یہ Cut Off طئے ہوا ہے ۔ یکم جنوری 1966 سے لیکر 24 مارچ 1971 کا کٹ آف طویل احتجاج اور حکومت سے بات چیت کے بعد طئے ہوا ۔ قانون داں اندرا جئے سنگھ نے لکھا ہے کہ اسی جنوری تک مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں سیکشن 6(A) کا بچاو کررہی تھی جس کے تحت 1971 کی کٹ آف تاریخ ہے لیکن اب وہی حکومت بنا Cut Off لیکر آگئی ہے کہ 31 ڈسمبر 2014 کے پہلے جو آیا ہے وہ مسلمان چھوڑ کر باقی کے 6 مذاہب سے آتا ہے تو اسے شہریت دی جائے گی ۔ 1971 سے پہلے کاکٹ آف مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کرتا ہے جبکہ 2014 والا کرتا ہے کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ ایک غیرقانونی غیر دستوری قانون ہے ؟ اس پہلو پر چیف جسٹس چندر چوڑ کی بنچ نے ڈسمبر 2023 میں سماعت مکمل کرلی تھی لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں آیا ہے دیکھنا ہوگا کہ شہریت ترمیمی قانون کے لاگو ہونے کے بعد اس کے تحت کسی کو شہریت مل جاتی ہے تو اس فیصلہ کا اس پر کیا اثر ہوگا ؟ اگر فیصلہ مخالفت میں آیا تو کیا جنہیں شہریت ملی ہے وہ واپس لے لی جائے گی ؟ کیا ایسا کرنا ممکن ہوگا ؟ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ آسام کی سیاست میں بنگلہ دیشی دراندازی کا موضوع رہا ہے اسے بڑھا کرنے میں وہاں کی تنظیمیں اور بی جے پی نے کافی دم لگایا اسی کا نتیجہ تھا کہ قریب 1600 کروڑ روپئے خرچ کر کے وہاں NRC کروائی گئی ۔ سال 2018 میں پھر شہریت رجسٹر کا کام ہورہا تھا تب پتہ چلا کہ 40 لاکھ لوگ اس سے باہر ہوگئے اورا س میں بڑی تعداد میں ہندو ہیں جو اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے ۔ 2019 میں پھر سے NRC ہوئی اور 19 لاکھ لوگ اس سے باہر ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں 12 لاکھ ہندو باہر ہوئے تب بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں کہا کہ ہم صحیح رجسٹر تیار کروائیں گے مطلب جو رجسٹر سپریم کورٹ کی نگرانی میں بنا اُسے تسلیم نہیں کیا ۔ آج تک صحیح شہری رجسٹر کا پتہ نہیں جس کا بی جے پی نے وعدہ کیا تھا ۔ خیال رہے کہ آسام کی سیاست میں بیرونی یا بنگلہ دیشی دراندازی کی مخالفت مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے یہ سیاست ہندو بنگالی اور مسلم بنگالی دونوں کی مخالفت کرتی ہے اور باہر جانے کیلئے کہتی ہے جو بھی بنگلہ دیش سے آئے ہیں مگر شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد کی بات کرتا ہے اس قانون کی سیاست ہندی اخبارات میں کچھ اور نظر آئے گی مگر آسام اور بنگال میں جاتے ہی بدل کر کچھ اور ہوجاتی ہے ۔ ڈسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون پارلیمنٹ میں منظور ہوا اس کے بعد حکومت نے بالکل خاموشی اختیار کی ۔ اپریل 2021 میں بنگال اور آسام میں اسمبلی انتخابات ہوئے آپ جانتے ہیں کہ آسام کی سیاست سے NRC اور CAA کا مسئلہ نکلا ہے لیکن یہاں کے انتخابی منشور میں بی جے پی شہریت قانون کو شامل ہی نہیں کیا لیکن بنگال کے انتخابی منشور میں شہریت ترمیمی قانون کو شامل کیا گیا اور کہا کہ حکومت بنی تو کابینہ کے پہلے اجلاس میں شہریت ترمیمی قانون کو لاگو کردیں گے ۔ بنگال میں بی جے پی کی حکومت نہیں بنی ۔ بی جے پی کو پتہ تھا کہ آسام میں NRC کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں ہندو باہر ہوگئے ہیں ان میں سے تمام بنگلہ دیشی ہی تھے ایسا بالکل نہیں کہا جاسکتا یہی نہیں یہ ثابت کرنا بھی مشکل تھا کہ جو مسلمان اس رجسٹر میں نہیں آئے ہیں وہ تمام کے تمام درانداز ہیں ۔ بنگلہ دیش سے آئے ہیں ان تمام پر تبدیلی مذہب معاملہ ثابت کرنا تو اور مشکل ہوجاتا یہ تو کئی برسوں سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں اگر بی جے پی ان لوگوں کو شہریت دیتی تو آسام کے ہندو عوام ہی اس کے خلاف ہوجاتی آسام میں شہریت ترمیمی قانون کی اس لئے مخالفت ہوتی ہے کیونکہ یہاں کی کئی تنظیمیں ان تمام کو بیرونی باشندے تسلیم کرتے ہیں جو بنگلہ دیش سے آئے ہیں چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ۔ اسی لئے بی جے پی آسام میں چپ ہوگئی اور بنگال جاتے ہی گرجنے لگی ۔ آسام میں بہت پوچھنے پر یہ کہکر نکل جاتی رہی کہ کووڈ کے بعد لاگو کریں گے ۔ امیت شاہ نے 2022 میں ایک بیان دیا تھا وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ کانگریس سی اے اے کے بارے میں افواہیں پھیلارہی کہ سی اے اے زمین پر لاگو نہیں ہوگا میں یہ کہتا ہوں کہ کووڈ وبا کے ختم ہوتے ہی سی اے اے کو ہم زمین پر اُتاریں گے اور ہمارے بھائیوں کو شہریت دے کر رہیں گے ۔