شیشہ و تیشہ

   

انورؔ مسعود
قیس و لیلیٰ
قیس و لیلیٰ بھی تو کرتے تھے محبت لیکن
عشق بازی کے لئے دشت کو اپناتے تھے
ہم ہی احمق ہیں جو ہوٹل میں چلے آتے ہیں
وہ سمجھدار تھے جنگل کو نکل جاتے تھے
……………………………
گٹر سے بھی !
مجھے گر منتخب کر لو گے بھائی
پنپنے کی نہیں کوئی برائی
مجھے کہنا کہ ناقص ہے صفائی
گٹر سے بھی اگر خوشبو نہ آئی
……………………………
مزاحیہ غزل
یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصول ادھار ہوتا
‘‘اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا‘‘
کہا میں نے میںہوںٹیچر تو نکاح مجھ سے کرلے
کہا اس نے کر ہی لیتی جو تو تھانے دار ہوتا
تیری ویزا لاٹری کو یہ سمجھ کے جھوٹ جانا
’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘
یہ کہاں کا امتحاں ہے کہ سبھی ممتحن ہیں ناصح
’’کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا‘‘
جو ہماری ڈیڈ باڈی کہیں چیل کوے کھاتے
‘‘نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‘‘
غم عشق ہی بھلا ہے کہ بلا کا ہوں نکھٹو
’’غم عشق اگر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا‘‘
تیرا ناز تیرا عاصیؔ بڑے شوق سے اٹھاتا
جو یہ ہر مہینے جاناں فقط ایک بار ہوتا
……………………………
کہیں دیکھا ہے ؟
٭ ایک بار تین عورتیں بس اسٹاپ پر کھڑی باتیں کررہی تھیں جس کا موضوع تھا ’’کس کا شوہر زیادہ بُھلکڑ ہے ‘‘ ۔
پہلی عورت نے کہا : ’’مرے شوہر تو اس قدر بُھلکڑ ہیں کہ بغیر کھانا کھائے آفس چلے جاتے ہیں اور کھانا لیکر مجھے آفس جانا پڑتا ہے ‘‘۔
دوسری عورت نے کہا : ’’میرے شوہر تو اور بھی زیادہ بھلکڑ ہیں ، فل پائنٹ کے بجائے کبھی کبھی وہ ہاف پائینٹ پہن کر دفتر چلے جاتے ہیں ‘‘ ۔ تیسری عورت جو کافی دیر سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی کہنے لگی : ’’یہ تو کچھ بھی نہیں ! میرے شوہر تو اتنے بھلکڑ ہیں کہ جواب نہیں اُن کا ۔ ایک بار میں کپڑے خریدنے ایک دکان میں گئی ۔ اتنے میں وہ بھی دکان میں آپہنچے ۔ جب میری نظر اُدھر گئی تو وہ مسکرا پڑے ۔ میں بھی مسکرانے لگی ۔ وہ میرے قریب آئے اور کہنے لگے :
’’لگتا ہے بہن جی ! کہیں آپ کو دیکھا ہے ؟‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………
پولیٹکس (Politics)
بیٹا (اپنے ٹیچر باپ سے ) :ڈیڈ ! یہ پولیٹکس کیا ہے؟
ٹیچر ( باپ ) : تمہاری ماں گھر چلاتی ہے اُسے حکومت مان لو ، میں کماتا ہوں مجھے وزیر مان لو، کام والی کام کرتی ہے اُسے مزدور مان لو ، تم اپنے آپ کو ملک کی عوام مان لو ، چھوٹے بھائی کو ملک کا مستقبل مان لو…!
بیٹا : اب مجھے پولیٹکس سمجھ میں آگئی ، ڈیڈ ، کل رات میں نے دیکھا کہ وزیر مزدور کے ساتھ کچن میں گلے مل رہا تھا ، حکومت سو رہی تھی ، عوام کی کسی کو فکر نہیں تھی اور ملک کا مستقبل رو رہا تھا …!
محمد امتیاز علی نصرت ؔ۔ پداپلی، کریمنگر
…………………………
خون کا اثر …!
٭ ایک مالدار شخص کو خون کی ضرورت پڑی تو اتفاقاً ایک کنجوس شخص نے اُسے خون دیا ۔ مالدار شخص نے خون کا عطیہ دینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُسے تحفہ میں کار دی! ۔
دوسری دفعہ پھر سے مالدار شخص کو خون کی ضرورت پری تو وہی کنجوس شخص دوڑا دوڑا پہونچا اور اُسے خون دیا ۔
اس بار مالدار شخص نے خون کا عطیہ دینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو دو لڈو دیئے ۔ لڈو پاکر کنجوس شخص کے چہرے پر مایوسی دوڑ گئی تو مالدار شخص نے کہا : ’’مایوس مت ہو ، یہ تمہارے ہی خون کا اثر ہے…!‘‘
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ ، نظام آباد
………………………
میں سمجھا !
٭ لڑکے نے قصائی سے سوال کیا : یہ بکرا کیوں چیخ رہا ہے ؟
قصائی بولا : اسے ذبح کرنے کے لئے لے جارہا ہوں ۔
لڑکے نے کہا : اُوہ … میں سمجھا تم اسے اسکول لے جارہے ہو !!
ڈاکٹر فوزیہ چودھری ۔ بنگلور
…………………………