شیشہ و تیشہ

   

محمد انیس فاروقی انیسؔ
جنتا ترس رہی ہے …!
موسم بغیر بارش جیسے برس رہی ہے
بیوی بھی مجھ پہ یارو ویسے برس رہی ہے
باتوں میں اُن کی میٹھی جنتا جو آگئی تھی
وہ موج کررہے ہیں جنتا ترس رہی ہے
…………………………
احمد خاں احمدؔ
مزے سے …!!
مصیبت نے ہم کو رُلایا مزے سے
حکومت نے بھی ہے ستایا مزے سے
سڑک پر کسانوں نے ڈیرا لگایا
ٹرک لاکے اُن پر چڑھایا مزے سے
کرونا کا ڈھونڈا نہ کوئی علاج
مگر تخت اپنا سجایا مزے سے
یہاں آگ پٹرول کی اک لگاکر
وہ گنگا میں جاکر نہایا مزے سے
دھرم سنسدوں کے بہانے سے احمدؔ
سیکولر چھبی کو مٹایا مزے سے
…………………………
دروغ گوئی …!
٭ پانچ دوست اندھا ، بہرہ ، لنگڑا ، بغیر ہاتھ والا اور فقیر جنگل سے گذر رہے تھے ۔ ایک اور قافلہ والوں نے بازو سے گذرتے ہوئے کہا … ’’جنگل ہے جلد نکل جاؤ پیچھے سے چوروں کے آنے کی اُمید ہے ‘‘۔
یہ سن کر اندھا اپنے ساتھیوں سے بولا شاید چور قریب ہی ہوں گے مجھے دھول اُڑتی دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ سن کر بہرہ بولا … ’’ہاں ! مجھے بھی گھوڑے کہ ٹاپوں کی آواز آرہی ہے ‘‘ تو لنگڑا بولا … ’’تو دیکھ کیا رہے ہو چلو سرپٹ بھاگ نکلیں گے ‘‘۔ یہ سن کر بغیر ہاتھ والا بولا ’’ہم بزدل نہیں ہیں ، آنے دو تلوار سے ایک ایک کی گردن اُڑا دیں گے‘‘۔ چاروں کی باتیں سُن کر فقیر بولا تم لوگ اگر ایسے ہی باتیں کرتے رہے تو چور آکر مجھے لوٹ لیں گے …!!‘‘
مظہر قادری۔ حیدرآباد
…………………………
اس کے بس کا روگ نہیں!
٭ کنور مہندر سنگھ بیدی جن دنوں دہلی کے مجسڑیٹ تھے، ان کی عدالت میں چوری کے جرم میں گرفتار کئے گئے ایک نوجوان کو پیش کیا گیا۔کنور صاحب نے نوجوان کی شکل دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں ملزم کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ہتھکڑیاں کھول دو، یہ بیچارہ تو ایک شاعر ہے، شعر چرانے کے علاوہ کوئی اور چوری کرنا اسکے بس کا روگ نہیں‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
حافظے کی کمزوری کے جرم میں
ایک قیدی (دوسرے قیدی سے):۔ یار تم کس جرم میں جیل آئے ہو؟
دوسرا قیدی: حافظے کی کمزوری کے جرم میں
پہلا قیدی: حافظے کی کمزوری؟۔ کیا مطلب؟۔ میں کچھ سمجھا نہیں۔ یہ بھی قید ہونے کی وجہ ہے بھلا؟
دوسرا قیدی:۔ سچ کہہ رہا ہوں یار۔ در اصل میں یہ بھول گیا تھا کہ جس دیوار میں نقب لگا رہا ہوں وہ تھانے کی ہے۔
عبداﷲ محمد عبداﷲ ۔ حیدرآباد
…………………………
قدامت کا انعام
٭ امریکہ کے ماہرین آثار قدیمہ کو ایک پُرانا کتے کا مجسمہ ملا لیکن انھیں اس کی قدامت کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل سکا۔ چنانچہ انھوں نے اعلان کیاکہ جو کوئی اس کی صحیح قدامت بتائے گا اسے انعام دیا جائے گا ۔ ایک پولیس انسپکٹر نے کہاکہ وہ بتاسکتا ہے ، چنانچہ مجسمہ اس کے حوالے کردیا گیا ۔ چند روز بعد اس پولیس انسپکٹر نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ’’مجسمہ چار سو بیس سال قبل مسیح کا ہے ‘‘ ۔
’’وہ کیسے ؟‘‘ ایک اخبار نویس نے پوچھا ۔
پولیس انسپکٹر فخر سے بولا ۔ ’’ہم نے جب اس کتے کے مجسمے کو ’’بجلی کی کرسی ‘‘ پر بٹھایا تو اس نے خود اپنی زبان سے بتایا کہ وہ اتنا قدیم ہے …!!‘‘۔
نظیر سہروردی۔ راجیونگر
…………………………
میں پھاڑوں تو …!؟
لڑکا (لڑکی سے ) : یہ تمہاری قمیص کیوں پھٹی ہوئی ہے …!؟
لڑکی : یہ فیشن ہے
لڑکا : واہ ! تم خود پھاڑلو تو فیشن اور میں پھاڑوں تو پولیس اسٹیشن …!!
شعیب علی فیصل۔ محبوب نگر
…………………………