شیشہ و تیشہ

   

پاپولر میرٹھی
پٹ گئے !
نیر ، جمال ، اشرف و آعظم بھی پٹ گئے
کوئے بتاں میں شیخ مکرم بھی پٹ گئے
دیوانے پن میں قبلۂ عالم بھی پٹ گئے
ہم تھے بہت شریف مگر ہم بھی پٹ گئے
…………………………
فرید سحرؔ
آج کل … !!
جی حُضوری میں مزہ ہے آج کل
کون ورنہ پُوچھتا ہے آج کل
عشق کا چکر بُرا ہے آج کل
تاک میں بیٹھی قضا ہے آج کل
عالموں سے ہم تو اب ملتے نہیں
جاہلوں سے واسطہ ہے آج کل
اب کوئی کرتا نہیں یارو کرم
ظُلم کا اک سلسلہ ہے آج کل
صبح اُٹھ کر وہ پکاتی اب نہیں
ہوٹلوں میں ناشتہ ہے آج کل
چھوٹا موٹا بستی کا لیڈر ہی کیا
ہر منسٹر پھینکتا ہے آج کل
اصل شاعر کو کوئی سُنتا نہیں
میرے جیسوں کی ہوا ہے آج کل
جُھوٹ کہنے میں جو ماہر ہے بہت
مرتبہ اُس کا بڑا ہے آج کل
یاد رب کو دل سے کرکے دیکھو تُم
ہر مرض کی وہ دوا ہے آج کل
حال پتلا شوہروں کا ہو گیا
بیویوں کا دبدبہ ہے آج کل
ساتھ رہ کر ہاتھ وہ دیتے ہیں اب
بغض سینے میں بھرا ہے آج کل
صرف گُٹکا اور موبائل ہی سحرؔ
نوجوانوں کی غذا ہے آج کل
…………………………
جمہوریت اور یقین !
٭ ہمارے ایک دوست کا بیان ہے کہ میرا یقین تو جمہوریت سے 1996 ء ہی میں اُٹھ گیا تھا۔کہنے لگا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جمعرات کو میں اور میرے باقی تینوں بہن بھائی، امی ابو کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ابا جان نے ہم سب سے پوچھا: بچو، کل تمھارے چچا کے گھر چلیں یا ماموں کے گھر؟
ہم سب بہن بھائیوں نے بہت شور مچاکر چچا کے گھر جانے کا کہا، ماسوائے امی کے جن کی رائے تھی کہ ماموں کے گھر جایا جائے۔
بات اکثریت کے مطالبے کی تھی اور رائے شماری سے طے پا گیا تھا کہ چچا کے گھر جانا ہے۔ امی کا موقف ہار گیا تھا۔ ابا جان نے بھی ہماری رائے کے احترام میں چچا کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ ہم سب بہن بھائی چچا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبائے جا سوئے۔
جمعہ کے دن صبح اٹھے تو امی کی ہنسی ہی نہیں تھم رہی تھی۔ ہنسی بمشکل دبائے انھوں نے ہمیں کہا کہ سب جلدی سے کپڑے بدلو، ہم لوگ تمھارے ماموں کے گھر جا رہے ہیں۔
میں نے ابا جان کی طرف دیکھا جو خاموش اور توجہ سے اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ فرما رہے تھے۔ میں منہ تکتا رہ گیا۔
بس جی، میں نے تو اسی دن سے جان لیا ہے کہ جمہوریت، اکثریت کی رائے کا احترم اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ تو ایک سے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل فیصلے تو بند اور اندھیرے کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب غریب عوام سو رہی ہوتی ہے ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
جی ہاں !!
٭ ایک پروفیسر صاحب جن کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری تھی تقریر کررہے تھے ۔ تب کسی مسخرے نے شرارت سے پوچھا
’’کیا آپ مویشیوں کے ڈاکٹر ہیں ؟‘‘
پروفیسر صاحب نے برجستہ کہا ’’جی ہاں !کیا جناب کی طبیعت ناساز ہے ؟ ‘‘۔
حجاز، الاف ، احمد ، محمد ۔ حیدرآباد
…………………………
کیوں کہ …!
٭ ادھیڑ عمر کے شوہر نے اپنی نوجوان بیوی سے محبت جتاتے ہوئے کہا …!
ابھی تک میری زندگی سے دور کیوں رہیں ؟
یہ سن کر بیوی نے طنزیہ جواب دیا : ’’کیونکہ حضور کی بیس برس کی عمر میں تو میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی …!!‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………