شیشہ و تیشہ

   

محمد انیس فاروقی انیسؔ
نہیں معلوم …!؟
وقت بھی بدلتا ہے کیا تمہیں نہیں معلوم
گرکے وہ سنبھلتا ہے کیا تمہیں نہیں معلوم
اقتدار کی کُرسی مستقل نہیں ہوتی
وقت خود بھی ٹلتا ہے کیا تمہیں نہیں معلوم
…………………………
شاہدؔ عدیلی
مزاحیہ غزل
میں جو مانگوں مجھے ملتا بہت ہے
خسر صاحب کا دل دریا بہت ہے
لہو انساں کا گر سستا بہت ہے
دواخانوں میں کیوں عنقا بہت ہے
ہے شہرت اُس کی اُس کے فن سے بڑھکر
ہے پھل میں مغز کم چھلکا بہت ہے
لگانی ہے مجھے توبہ کی جھاڑو
میاں اندر مرے کچرا بہت ہے
ہو نومولود میدانِ سخن میں
ابھی تو ایڑیاں گھسنا بہت ہے
کھٹکتے ہیں اسے سارے قدآور
ہے اک بونا جو جل کُکڑا بہت ہے
کنویں میں تیر کے اکڑو نہ شاہدؔ
سمندر فکر کا گہرا بہت ہے
…………………………
اس کے بس کا …!
٭ کنور مہندر سنگھ بیدی جن دنوں دہلی کے مجسڑیٹ تھے، ان کی عدالت میں چوری کے جرم میں گرفتار کئے گئے ایک نوجوان کو پیش کیا گیا۔
کنور صاحب نے نوجوان کی شکل دیکھتے ہوئے کہا : ’’میں ملزم کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ہتھکڑیاں کھول دو، یہ بیچارہ تو ایک شاعر ہے، شعر چرانے کے علاوہ کوئی اور چوری کرنا اسکے بس کا روگ نہیں‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
خوفناک…!
اسٹوڈنٹ : سر لوگ اُردو اور انگریزی میں بات کرتے ہیں ، میاتھس میں بات کیوں نہیں کرتے ۔
ٹیچر : زیادہ 3,5 نا کرو ، 9,2,11 ہوجاؤ ورنہ 6 کے 36 نظر آئیں گے اور 32 کے 32 باہر آجائیں گے ‘‘۔
اسٹوڈنٹ : سر اُردو اور انگریزی ہی ٹھیک ہے ، میاتھس تو بولنے میں بھی بہت خوفناک ہے …!!
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔پداپلی ، کریمنگر
…………………………
دل کا معاملہ ہے !
٭ ایک صاحب ایک محترمہ پر عاشق ہوگئے ۔ عشق اپنے پورے شباب پر پہنچ گیا ۔ وہ جب تک روزانہ ایک دوسرے سے نہ مل لیتے ان کو نیند نہ آتی تھی ۔ محبوبہ لوگوں کی نظروں کو دھوکہ دینے کیلئے اپنے عاشق کو ہر روز کسی نہ کسی نئے مقام پر پہنچنے کا وقت دیتی ، کبھی پارک میں ، کبھی ہوٹل میں ، کبھی سینما ہال میں اور عاشق اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہر روز مختلف بسیں بدل بدل کر ، انتظار میں تھک ہارکر ، لوگوں سے پتے پوچھ پوچھ کر بالآخر مقام ملاقات پر پہنچ جاتا ۔
ایک مرتبہ جب وہ اسی طرح تھکا ہارا محبوبہ کے پاس پہنچا تو محبوبہ بڑے رومانٹک موڈ میں تھی اور جذبہ عشق میں بولی ’’پیارے…! میرا جی چاہتا ہے کہ آج تمہیں کوئی تحفہ دوں، بتاؤ تم کیا پسند کرو گے ‘‘ ۔
عاشق تھکے ہوئے انداز میں بولا ’’مجھے تو تم صرف ایک سائیکل دلا دو !‘‘ ۔
مبشر سید ۔ چنچل گوڑہ
…………………………
اُداسی کا سبب !
٭ بہو میکے جاتے ہوئے اپنے لڑکے کو سسرال میں چھوڑ کر چلی گئی ۔ کچھ دنوں کے بعد سسرال سے بہو کو ایک خط ملا جس میں لکھا تھا … !
’’بہو جلد آجاؤ ! تمہارے بغیر لڑکا
اُداس رہتا ہے !‘‘ ۔
بہو نے جواب میں ساس کو لکھا … ’’مہربانی فرماکر صاف صاف لکھیئے کہ کس کا لڑکا اُداس رہتا ہے ! میرا یا آپ کا …!!‘‘
مریم، حسنیٰ ۔ ٹولی چوکی
…………………………
خاصیت !
٭ طلاق کے مقدمے میں مجسٹریٹ نے عورت سے سوال کیااس آدمی میں ضرور کوئی خاصیت رہی ہوگی جس کی وجہ سے تم نے اس سے شادی کی تھی ؟
جی ہاں تھی تو ، لیکن اب وہ سب خرچ ہوچکی ہے اور اب یہ شخص کنگال ہوچکا ہے ۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………