شیشہ و تیشہ

   

پاپولر میرٹھی
تو میرا شوق دیکھ…!
حالانکہ تو جواں ہے ، مُٹلو ہے آج بھی
پھر بھی ہے تجھ پہ کتنا مجھے اعتبار دیکھ
کھدوا رہا ہوں قبر ابھی سے تیرے لئے
تو میرا شوق دیکھ ، میرا انتظار دیکھ
…………………………
ڈاکٹر قیسی قمر نگری
مزاحیہ غزل …!
جس کی آنکھوں میں حسد بغض ہو کاجل کی طرح
اس کو سوئی بھی نظر آتی ہے سبّل کی طرح
کرتے رہتا ہے حفاظت میرا ایماں میری
سردیوں میں کسی چرواہے کی کمبل کی طرح
آپ کا ذہن بھی اور دل بھی ہے خالی خالی
کسی نوسیکھئے سادھو کے کمنڈل کی طرح
جھوٹ مت بولیے مت بولیے مت بولیے
ورنہ پُھل جاؤ گے بی ایس پی کے سنبل کی طرح
ٹوٹ کر بھی بکھیروںگا میں ہر سو خوشبو
میں ہوں اک عطر کی ٹوٹی ہوئی بوتل کی طرح
دو کتابیں کیا چھپیں بن گیا ملک الشعراء
کنکی ہے خود کو سمجھتا ہے وہ چاول کی طرح
مرے اﷲ مجھے زندگی عزت کی دو
مجھکو رسوا نہ کرو مودی جی انکل کی طرح
ساری حجاموں کی دوکانیں ہیں بند نہ جانیں کیوں
پیر بھی مجھ کو نظر آتی ہے منگل کی طرح
تیرے گالوں کانشاں لاکھ بہانے کرلے
مجھ کو لگتا ہے تیری بیوی کی چپل کی طرح
بائیک پر بیٹھو میں لیجاؤں گا تم کو لیکن
کان کترو نہ میرا بابی کی ڈمپل کی طرح
پیسے لے کے وہ لکھتا ہے مقالے قیسیؔ
اردو دنیا کو بنا ڈالا ہے چمبل کی طرح
…………………………
اعترافِ حقیقت…!
ایک دوست (اپنے دوست سے ) : ’’اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ فوٹو اُتروانے گئے تھے ، یقینا بہت ہی اچھا فوٹو اُترا ہوگا ، فوٹوگرافر نے تم دونوں کا پوز کیا بنایا تھا …؟‘‘
دوسرا دوست : ’’فوٹوگرافر نے کہاکہ آج کل کا زمانہ فطری اور حقیقی فوٹو اُتروانے کا ہے چنانچہ اُس نے میری بیوی کو میرے پاس اس طرح کھڑا کیاکہ اُس کاہاتھ میری جیب میں تھا…!!‘‘
ہانیہ ، تشبیب ۔ نلگنڈہ
…………………………
اپ ڈیٹ
فقیر(مکان مالکن سے) : باجی بھوکا ہوں اللہ کے نام پر کھانا دے دو …
مالکن : کھانا ابھی نہیں پکا۔
فقیر : باجی !فیس بک پر ’’بابا نیاز‘‘ کے نام سے ہوں ، پک جائے تو وال پر اپ ڈیٹ کر دینا۔
عباس احمد ۔ چندرائن گٹہ
…………………………
کس کا ہے …!!
٭ ملٹی نیشنل کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ اچانک وارڈ روب پر لٹکے قیمتی کوٹ کی جیب میں سے موبائل کی گھنٹی بجی۔ ایک صاحب دوڑ کر گئے اور فون نکال کر اٹینڈ کرلیا۔ دوسری طرف خاتون کی آواز تھی :’’ہیلو ہنی ! میں آج دفتر سے جلدی گھر جا رہی تھی سوچا تھوڑی شاپنگ کر لوں۔ میرے پاس تمھارا کریڈٹ کارڈ ہے۔ میں سوچ رہی ہوں وہ جو پچھلے ہفتے جیولری کی دکان پر ڈائمنڈ کا سیٹ دیکھا تھا۔ تقریباً 2000 ڈالرز کا۔ کیا وہ خرید لوں‘‘۔
صاحب: ہاں ڈارلنگ خرید لو۔ کوئی بات نہیں۔
خاتون: ارے ہاں وہ پراپرٹی ایجنٹ بھی تو راستے ہی میں ہے۔ میں اپنے نام پہ بنگلہ لینا چاہتی ہوں تم نے مجھے پچھلی برتھ ڈے پر ایک بنگلہ گفٹ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے 3 ملین ڈالرز کا ایک بنگلہ بہت پسند ہے۔ کیا وہ بھی خرید لوں؟صاحب : ہاں بھئی خرید لو۔ لیکن پلیز میں میٹنگ میں ہوں۔
خاتون: اوہ میں دنیا کی کتنی خوش قسمت خاتون ہوں کہ مجھے تم جیسا پیار کرنے والا شوہر ملا۔ صرف ایک آخری بات۔ تمھیں تو پتہ ہے مجھے ا سپورٹس کار کا بہت شوق ہے۔ مجھے ایک نئی اسپورٹس کار بہت اچھی لگ رہی ہے۔ ابھی وہیں کھڑی ہوں اگر بولو تو تمھارے کریڈٹ کارڈ سے 1.5 ملین ڈالرز کی یہ گاڑی بھی خرید لوں؟
صاحب : اچھا وہ بھی خرید لو۔ آخر ساری دولت تمھارے لئے ہی تو ہے۔
خاتون: ’’تھینک یو سویٹ ہارٹ۔ آئی لو یو ویری مچ۔ بائے بائے…!!‘‘
ان صاحب نے بھی بائے کہہ کر فون واپس کوٹ کی جیب میں رکھا اور واپس باقی ڈائریکٹرز کی طرف مڑ کر پوچھا۔
’’یہ کوٹ اور موبائیل کس کا ہے ؟‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………