شیشہ و تیشہ

   

استاد رامپوری
یہ سال دوسرا ہے
(جنوری سے ڈسمبر تک کا حساب کتاب )
جب تم سے اتفاقاً میری نظر ملی تھی
کچھ یاد آرہا ہے شاید وہ جنوری تھی
مجھ سے ملیں دوبارہ یوں ماہ فروری میں
جیسے کہ ہم سفر ہو تم راہِ زندگی میں
کتنا حسیں زمانہ آیا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھیں تم وعدوں کی ٹارچ لے کر
باندھا جو عہدِ اُلفت اپریل چل رہا تھا
دنیا بدل رہی تھی موسم بدل رہا تھا
لیکن مئی میں جبکہ دشمن ہوا زمانہ
ہر شخص کی زباں پر بس تھا یہی فسانہ
دنیا کے ڈر سے تم نے بدلی تھیں جب نگاہیں
تھا جون کا مہینہ لب پر تھیں گرم آہیں
جولائی میں جو تم نے کی بات چیت کچھ کم
تھے آسماں پہ بادل اور میری آنکھ پُرنم
ماہِ اگست میں جب برسات ہورہی تھی
بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہورہی تھی
توڑا جو عہدِ اُلفت وہ ماہ تھا ستمبر
بھیجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ طلب کا لیٹر
تم غیر ہوچکی تھیں اکتوبر آگیا تھا
دنیا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا
جب آگیا نومبر ایسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھیں چھڑانے سج کر بارات آئی
بے کیف تھا ڈسمبر جذبات مرچکے تھے
ان سرد مہریوں سے ارماں ٹھٹھرچکے تھے
پھر جنوری ہے لیکن اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا یہ سال دوسرا ہے
………………………
گھر میں سکون اور چین کی دعا!
٭ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو …!
٭ کام بھی کتنا کرتی ہو …!
٭ دبلی اور چھریری ہوگئی ہو …!
٭ دن بھر کام کرکے تھک جاتی ہوگی …!
٭ اپنا خیال رکھا کرو …!
٭ تمہارے میکے والے کتنے اچھے ہیں !
اس دعا کو بلاناغہ روزانہ 3 تا 4 مرتبہ گھر میں پڑھا کریں ، سکھ چین بنا رہے گا ۔
محمد اظہر ۔ ملک پیٹ
…………………………
بول کا فرق …!!
٭ ایک شخص کو اُردو الفاظ کے بول کا فرق جاننے کا شوق تھا ۔ پودے کی چند شاخیں ہاتھ میں لئے مختلف شہر کے افراد سے جب اُس نے دریافت کیا تو اُسے جواب یوں ملا:
لکھنو والے سے : آپ ان کو کیا کہتے ہیں ؟
جواب ملا : ٹہنیاں …!
دلی والے سے : آپ ان کو کیا کہتے ہیں ؟
جواب ملا : ڈالیاں …!
حیدرآباد والے سے : آپ ان کو کیا کہتے ہیں ؟
جواب ملا : منڈالے …!
دکھنی علاقہ والے سے : آپ ان کو کیا کہتے ہیں ؟ جواب ملا : ڈغالے …!
محمد فصیح الدین ۔ کاماریڈی
…………………………
انتساب !!
٭ ایک مصنف نے اپنی کتاب کا انتساب لکھا: ’’پیاری بیوی کے نام ، جس کی غیرموجودگی کی وجہ سے یہ کتاب مکمل ہوئی ‘‘۔
عبداﷲ سامی خالد۔ممتاز باغ
…………………………
گدھا آخر گدھا ہوتا ہے …!
٭ ایک دفعہ جنگل میں گھوڑے اور گدھے کی بحث ہوئی ۔ گھوڑے نے کہا ، آسمان کا رنگ نیلا ہے جبکہ گدھے کا کہنا تھا کہ آسمان کالا ہے ۔ بات بڑھی تو گھوڑے نے کہاکہ چلو اپنے بادشاہ کے پاس چلتے ہیں ، دونوں شیر کے پاس پہنچے اور تمام قصہ سنایا ۔ شیر نے سب کچھ سننے کے بعد کہا کہ گھوڑے کو جیل میں ڈال دیا جائے ۔ گھوڑے نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ’’بادشاہ سلامت ،یہ کیسا انصاف ہے ، صحیح بھی میں ہی ہوں اور جیل بھی مجھے جانا پڑ رہا ہے ‘‘ ۔
بادشاہ نے کہا : ’’بات صحیح یا غلط کی نہیں ہے ۔ تمہارا قصور یہ ہے کہ تم نے ایک گدھے سے بحث ہی کیوں کی …!‘‘
سید شمس الدین مغربی ۔ریڈہلز
………………………
منتھلی پاس !
استاد نے طالب علموں کو انتباہ دیتے ہوئے کہا! اگر کوئی لڑکا ایک بار گرلز ہاسٹل گیا تو 100 روپئے جرمانہ ادا کرنا ہوگا … !
دوسری دفعہ … 250 روپئے
تیسری دفعہ … 400 روپئے
شاگرد : سر ! Monthly Pass کتنا ہے !
محمد افتخار علی ۔ اندول
………………………