شیشہ و تیشہ

   

انور مسعود
رسم دنیا بھی ہے …!!
آپ بے جرم یقیناً ہیں مگر یہ فدوی
آج اس کام پر معمور بھی مجبور بھی ہے
عید کا روز ہے کچھ آپ کو دینا ہوگا
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
………………………
اقبال شانہؔ
عید مبارک!
گلشن گلشن عید مبارک
ساون ساون عید مبارک
گھر گھر برسے عید کی خوشیاں
آنگن آنگن عید مبارک
صندل کی خوشبو میں لپٹی
چندن چندن عید مبارک
آؤ یار گلے لگ جاؤ
تن من ، تن من عید مبارک
چوڑی ، کنگن ، پائل بولے
چھن چھن ، چھن چھن عید مبارک
پردیسی بالم گھر آئے
ساجن ، ساجن عید مبارک
پھولوں کی مالا پہنادے
مالن مالن عید مبارک
میرے کپڑے سی کر لاؤ
درزن درزن عید مبارک
عید گلے سے گلا ملتا ہے
گردن گردن عید مبارک
ویلکم شیخ مبارک صاحب
اھلاً و سھلاً عید مبارک
وہ شانہؔ پردے میں بیٹھا
چلمن ، چلمن عید مبارک
…………………………
جگر آخر جگر ہے
٭ کراچی کے ایک مشاعرے میں جگرمرادآبادی ہندوستان سے تشریف لے گئے ۔ اسی مشاعرے میں بہزاد لکھنوی بھی تھے ۔ بہزاد کو دیکھ کر پبلک نے شور مچایا ۔ ’’ ائے جذبۂ دل ائے جذبۂ دل ‘‘ یہ اشارہ ان کی مشہور غزل کی طرف تھا
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لئے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے
غزل کی شہرت اور بہزاد کے ترنم نے مشاعرے کو گرمادیا ۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب کسی کا چراغ نہیں جلے گا ۔ جگرؔ کا بھی نہیں ۔ جگر کی باری آئی تو انھوں نے بہزاد کو مخاطب کرکے اپنی غزل پڑھی جس کا مطلع تھا
اﷲ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
بہزاد کے شعر میں ’’ گر میں چاہوں سے بے جا غرور ظاہر ہوتا تھا جبکہ جگر نے کہا ’’ اﷲ اگر توفیق نہ دے ‘‘ ۔ عوام نے اس چوٹ اور اس فرق کو محسوس کرلیا اور جگر کو وہ داد ملی کہ سب کو کہنا پڑا
’’ جگر آخر جگر ہے ‘‘ ۔
مرسلہ : محمد مظفرالدین مجیب ۔ کرما گوڑہ
…………………………
نئے کپڑے
٭ عید کا موقع تھا ماں اپنے بیٹے کو لیکر شاپنگ کیلئے گئی اور اسے نئے کپڑے دلائے۔ عید کا دن آیا اور اس لڑکے نے نئے کپڑے پہن لئے اور اپنی ماں سے کہنے لگا ۔ ماں میں کھیلنے جارہا ہوں ۔ یہ سنکر ماں نے کہا بیٹا تم ان نئے کپڑوں سے کھیلو گے ؟ تب لڑکے نے بڑی معصومیت سے جواب دیا ’’نہیں ماں میں ان کپڑوں سے نہیں بازو جو نیہا ہے اس کے ساتھ کھیلوں گا ‘‘۔
ڈاکٹر محمد عابد اقبال ۔ جگتیال
…………………………
دو راستے …!!
٭ ہوائی جہاز کے سفر میں ائر ہوسٹس نے ایک مسافر کو بتایا۔ اگر آپ خاتون مسافروں کو تنگ نہ کریں تو سگار پی سکتے ہیں۔
مسافر نے خوش ہو کر کہا : مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے لیئے دو راستے کھلے ہیں۔ ایسی صورت میں سگار پینا بھلا کون پسند کرے گا۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
رونے کی وجہ…!
٭ ایک صاحب اپنے لڑکے کو اتنا کھانا ہی دیتے تھے کہ اس کا ہاضمہ خراب نہ ہو مگر لڑکے کی نیت نہیں بھرتی تھی۔ ایک روز ایک دعوت میں لڑکے کو ساتھ لے گئے ، وہاں کھانے ایک سے عمدہ ایک تھے ۔ لڑکا کھاتے کھاتے رونے لگا ۔
باپ نے لڑکے سے کہا : ’’بیٹا ! روتے کیوں ہو؟لڑکے نے روتے ہوئے جواب دیا :
’’اب کھایا نہیں جاتا!‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………