شیشہ و تیشہ

   

انور شعورؔ
شعور کی باتیں !
بینک در بینک اثاثے نہ بڑھائے ہوں گے
ہر بڑے شہر میں بنگلے نہ بنائے ہوں گے
پُوری دنیا میں کہیں نعمت ایزادی سے
یہ مزے اور کسی نے نہ اٹھائے ہوں گے
…………………………
فرید سحرؔ
غزل ( طنز و مزاح)
جب سے آزادی ملی ہے دوستو
ہر طرف دادا گری ہے دوستو
جس کی لاٹھی ہے اُسی کی بھینس اب
ورنہ گھر میں مفلسی ہے دوستو
روز ہم سُنتے ہیں اُن کی جھڑکیاں
یہ بھی کوئی زندگی ہے دوستو
مانتا ہوں یہ کہ میں کچھ تیز ہوں
وہ تو پوری سرپھری ہے دوستو
چور ، ڈاکو رہتے تھے پہلے کبھی
جیل میں اب منتری ہے دوستو
ہیں بہت نیتا مزے میں دیش کے
دار پر جنتا چڑھی ہے دوستو
کر کے شادی ہم بہت خوش تھے مگر
چار دن کی چاندنی ہے دوستو
ہے کہاں محفوظ عورت بھی یہاں
اُس کی عزت پر بنی ہے دوستو
داد کیوں کھل کر مجھے دیتے نہیں
کیا غزل یہ پُھسپُھسی ہے دوستو
جب سے آئی ہے پڑوسن اک حسیں
روز گھر میں کرکری ہے دوستو
شک وہی کرتے ہیں ہم پر ائے سحرؔ
جن کے دل میں گندگی ہے دوستو
…………………………
جلد علاج کیجئے …!
٭ ایک مشہور موبائیل فون کمپنی کے نمائندے کو پیٹ میں درد ہوکر دست ہونے لگے ۔ وہ سیدھے ڈاکٹر کے پاس گیا اور اپنی بیماری کو کچھ اس طرح بیان کیا :
ڈاکٹر صاحب ! میں صبح سے پریشان ہوں ، صبح سے ان لمیٹیڈ (Un Limited) آؤٹ گوئنگ (Out going) چل رہا ہے اندر سے عجیب عجیب قسم کے رنگ ٹون (Ring Tones) آرہے ہیں ۔ پیٹ میں بیالنس (Balance) بھی ختم ہوگیا ہے ۔ چھوٹا ریچارج بھی کرتا ہوں تو تھوڑی دیر میں نِل(Nil) ہوجاتا ہے ۔ پلیز اس اسکیم کو فوراً بند کیجئے ، بڑی مہربانی ہوگی ۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
…………………………
جب داد ملے …!
٭ جوش ملیح آبادی کے صاحبزادے سجاد کی شادی کی خوشی میں ایک بے تکلف محفل منعقد ہوئی جس میں جوشؔ کے دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ اُن کے جگری دوست ابن الحسن فکرؔ بھی موجود تھے۔
ایک طوائف نے جب بڑے سُریلے انداز میں جوش صاحب کی ہی ایک غزل گانی شروع کی تو فکرؔ صاحب بولے:
’’اب غزل تو یہ گائیں گی، اور جب داد ملے گی تو سلام جوش صاحب کریں گے‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
الگ الگ ٹکٹ …!
٭ ایک بس کنڈکٹر نے مسافروں سے کرایہ وصول کرنا شروع کیا اور کہا میرے پاس تین قسم کے ٹکٹ ہیں ایک روپیہ سے تین روپئے تک !
ایک مسافر نے پوچھا سب کو ایک ہی جگہ جانا ہے تو ٹکٹ الگ الگ کیوں ہیں؟
بتاؤں گا ! ضرور بتاؤں گا ! بس کنڈکر نے کہا :
اتفاق سے بیچ راستے میں بس خراب ہوگئی تو تین روپئے والے بس میں بیٹھے رہیں گے اور دو روپئے والے بس سے اُتر جائیں گے اور ایک روپیہ والے بس کو دھکا دیں گے !
مسافر نے یہ سن کر کہا ، کنڈکر صاحب بس اب میری سمجھ میں یہ بات آگئی …!!
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
…………………………
دکھڑا
٭ دو عورتیں بیٹھی اپنے شوہروں کا دکھڑا رو رہی تھیں ۔ ایک نے دوسرے سے کہا میرے شوہر نے مجھے دھمکی دی تھی کہ میں نے اسے تنگ کیا تو وہ مجھے گولی مار دے گا ۔
دوسری بولی تم زندہ ہو معلوم ہوتا ہے تم نے اسے تنگ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ پہلی بولی میں نے اس کا پستول چھپادیا ہے ۔
محمد فاروق ۔ حیدرآباد
…………………………