شیشہ و تیشہ

   

انور مسعود
خیر سے !
آپ نے صورتِ احوال اگر پوچھی ہے
ہم بڑی موج میں ہیں آپ کو بتلاتے ہیں
ایسی برکت ہے کبھی گھر نہیں رہتا خالی
کچھ نہ ہو گھر میں تو مہمان چلے آتے ہیں
………………………
فرید سحرؔ
بے سبب …!!
جس راستے سے آیا اُسی راستے سے جا
اب بے سبب دماغ مرا تُو میاں نہ کھا
غیبت فقط تُو کرتا ہے لوگوں کی رات دن
اک عُمر تیری ہو گئی تُو اب تو سُدھر جا
شادی ضرور تُجھ سے کروں گا میں جان من
ڈؤری میں پر تُو ایک مکاں،کار لے کے آ
جتنا بھی خرچ ہوگا وہ دے دوں گا میں تُجھے
اعزاز میں تُو میرے بڑی محفلیں سجا
خوش ہو رہا ہے ڈھا کے ستم ہم پہ تُو خبیث
تُو بد دُعا سے قوم کی ہو جائے گا فنا
منٹوں میں تیرے کام سب ہوجائیں گے یہاں
دفتر کو جا کے کُتوں کو کُچھ ہڈیاں کھلا
سُسرال کو جو اپنے کبھی جانا ہو تُجھے
لے کر تُو اپنے گھر سے نکل ماں کی اک دُعا
اللہ نے نوازا ہے تُجھ کو بڑا یہ فن
جتنے بھی لوگ غمزدہ ہیں اُن کو تُو ہنسا
بد پیچھے میری کرتا ہے تُو جم کے چُغلیاں
سینے میں بغض رکھ کے یوں اب ہاتھ مت ملا
عاشق بے چارہ کر لیتا ہے خود کشی سحرؔ
معشوق کو تو چھوٹی بھی ملتی نہیں سزا
برسوں سے تُو سُنا رہا ہے ایک ہی غزل
پر آج تُو سحر ؔ یہاں تازہ غزل سُنا
…………………………
سرپرائیز…!!
ساس بہو سے : تمہیں کھانا پکانا نہیں آتا تو شادی سے پہلے بتایا کیوں نہیں …!؟
بہو : آپ کو سرپرائیز دینے کیلئے …!!
اختر عبدالجلیل ۔ محبوب نگر
…………………………
زبان اور ٹانگ …!!
٭ سیاسی لیڈر (ڈاکٹر سے): ’’میں جب تقریر کرتا ہوں، میری زبان تالو میں چمٹ جاتی ہے اور میری ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں‘‘۔
ڈاکٹر نے جواب دیا: ’’کوئی بات نہیں، جھوٹ بولتے وقت اکثر ایسا ہوا کرتا ہے!‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
احمق کون ؟
٭ دو بیوقوف ٹہلتے ٹہلتے ایک دریا کے پُل پر جانکلے… وہاں انھوں نے ایک خوبصورت لڑکی کو آنسو بہاتے اور بڑبڑاتے ہوئے دیکھا وہ کہہ رہی تھی : میرا محبوب میرا دلبر ہر اتوار کو اس جگہ آکر ملاقات کرتا ہے لیکن آج وہ نہیں آیا ۔ لگتا ہے کہ وہ مجھ سے اُکتا گیا ہے ، بیزار ہوگیا ہے یا کسی اور لڑکی کے جال میں پھنس گیا ہے اب میرے لئے مرجانا ہی بہتر ہے ۔ یہ کہکر اُس نے دریا میں چھلانگ لگادی ۔
اس حادثہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ایک بیوقوف نے کہا : ’’یہ عورت دنیا کی سب سے احمق مخلوق تھی ‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو ‘‘دوسرے بیوقوف نے کہا …ویسے یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم اُس احمق لڑکی کو بتادیتے کہ آج اتوار نہیں ہفتہ ہے …!
محمد امتیاز علی نصرتؔ۔ پداپلی ، کریمنگر
…………………………
اُدھار رہے !
٭ ایک پڑوسن دوسری پڑوسن سے مجھے سو روپئے اُدھار چاہئے ۔
دوسری پڑوسن : نہیں بہن میرے پاس سو روپئے نہیں ، اسی روپئے ہیں ۔ پہلی پڑوسن : لائیے ! اسی روپئے ہی دے دیجئے بچے ہوئے 20 روپئے آپ پر اُدھار رہے !!
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………
دھوکے باز کون ؟
جج نے عورت کو ڈانٹتے ہوئے کہا : ’’تمہیں شرم آنی چاہئے ، تم نے اپنے پتی کے ساتھ بیوفائی کی اسے دھوکہ دیا ‘‘۔
اس پر عورت نے کہا : ’’جی دھوکا میں نے نہیں انھوں نے مجھے دیا ہے ۔ جاتے وقت کہا تھا کہ میں تین دن کے بعد آؤں گا اور اسی رات واپس آگئے !‘‘۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
رنگے ہاتھوں !
پولیس آفیسر (دوست سے ) : میں نے ایک آدمی کو رنگے ہاتھوں پکڑا ہے ۔
دوست : ’’وہ کیسے ؟ ‘‘
پولیس آفیسر : ’’رنگ کررہا تھا میں نے پکڑلیا‘‘
تمنا افروز ۔ دیورکنڈہ
…………………………