شیو ا موگا تہوار میں مسلمانوں کو دوکانیں لگانے سے روک دیاگیا

,

   

ایسا بتایاجارہا ہے کہ کمیٹی کو ٹنڈر ایک ہندوتوا گروپ کے نام جاری کرنے کے دباؤ ڈالاگیاتھا کیونکہ بی جے پی‘ بجرنگ دل اور وی ایچ پی مسلمانوں کو دوکانیں نہیں لگانے دینے کی مانگ کی تھی۔


کرناٹک کے ضلع شیو ا موگا میں جہاں پچھلے کچھ ہفتوں سے مخالف مسلمان مظالم کے واقعات پیش ائے ہیں وہاں پر ایک اور اسلام فوبیا کی ایک اور مثال سے نبرد آزما ہے۔

ایسا بتایاجارہا ہے کہ مذکورہ انتظامی کمیٹی برائے کوٹی ماریکامبا جاترا(شیوا موگا میں منعقد ہونے والے تہوار) کے لئے ٹنڈر ایک ہندوتوا گروپ کے نام جاری کرنے کے دباؤ ڈالاگیاتھا کیونکہ بی جے پی‘ بجرنگ دل اور وی ایچ پی مسلمانوں کو دوکانیں نہیں لگانے دینے کی مانگ کی تھی۔

مذکورہ انتظامی کمیٹی جو 22مارچ سے شروع ہونے والے پانچ روزہ تہوار کی نگرانی کرتی ہے‘ ہندوتوا لیڈران او رگروپ کے دباؤ کا شکار ہوگئی ہے۔ایسا بتایاجارہا ہے کہ کمیٹی کو ٹنڈر ایک ہندوتوا گروپ کے نام جاری کرنے کے دباؤ ڈالاگیاتھا کیونکہ بی جے پی‘ بجرنگ دل اور وی ایچ پی مانگ کررہے تھے کہ تہوار کے دوران مسلمانوں کو دوکانیں نہیں لگانے دیاجائے۔

اس سے قبل دوکانوں کے انتظامات دوکاندار وں سے فیس کی وصولی کا ٹنڈر ایک ہندو فرد جس کا نام چکانا ہے کہ نام جاری کیاگیاتھا۔ اس کام کے لئے مذکورہ فرد نے 9.1لاکھ روپئے جمع کرائے تھے۔

پچھلی مرتبہ کی طرح چکانا کی جانب سے جاری کردہ دوکانیں اس مرتبہ بھی مسلمانوں کو دی گئی تھیں۔ سابق کی طرح اس مرتبہ بھی مسلمان دوکاندار اپنی دوکانیں لگانے 17مارچ کی رات تیاری کررہے تھے‘ ہندوتوا کارکنوں نے ان سے بحث کرتے ہوئے دوکانیں لگانے سے روک دیاتھا۔

اس پیش رفت کے بعد چکانا نے مایوس ہوکر اپنا ٹنڈر منسوخ کرنے کی اور کمیٹی سے جمع کردہ رقم واپس لوٹانے کی مانگ کی ہے۔

کمیٹی نے 19مارچ کے روز ہندوتوا گروپس کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ اس میں یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ دوکانوں کی اجرائی کا ٹنڈر ایک ہندوتوا گروپ کو دیاجائے گا۔

دی ہندو سے بات کرتے ہوئے کمیٹی کے صدر ایس کے ماریاپا نے کہاکہ ”ان تمام سالوں میں کسی ایک مخصوص مذہب کے گروپ کے خلاف کمیٹی کبھی نہیں کھڑی ہوئی ہے۔ مسلمان دوکانداروں کو دی جانے والی منظوری کے خلاف سوشیل میڈیاپلیٹ فارمس پر چند لوگوں نے مہم چلائی ہے۔

تہوار کے شروع ہونے کے لئے محض تین دن باقی ہیں۔ تہوار کے آسانی کے ساتھ انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے ہم نے ان کے مطالبات پر رضامندی ظاہر کی ہے‘ جہاں پر ہزاروں لوگوں کی آمد ہوتی ہے“۔ سال میں ایک مرتبہ یہ جاترا ہوتی ہے۔

اس تہوار میں پڑوسی اضلاعو ں او ر شہروں سے لاکھ لوگ شرکت کرتے ہیں۔ یہ تہوار2020فبروری میں آخری مرتبہ ہوا تھا۔ مذکورہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان او رعیسائی بھی ”ہراکا‘ کی پیشکش کرتے ہیں‘ جو دیوی کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے پیش کی جاتی ہے