صاحبِ درود تاج سیدنا الإمام الحبیب شیخ ابوبکر ؒ

   

مولانا حبیب سہیل العیدروس
شیخ ابوبکر بن سالم بلند احوال و اعلیٰ ترین مقامات پر فائز تھے جن کی ولایت و امامت اور بلند مرتبت پر سب کا اتفاق ہے ۔ آپؒ ۱۳ یا ۲۳ جمادی الآخر ۹۱۹؁ھ بروز ہفتہ حضرموت کے شہر تریم میں پیدا ہوئے ۔ ساداتِ باعلویہ کے کتنے ہی ائمہ نے آپؒ کی ولادت سے قبل آپؒ کی آمد کی بشارت سنادی تھیں جن میں سے ایک سیدنا الامام حبیب ابوبکر العیدروس صاحب العدن بھی ہیں ۔
ایک دن شیخ سالم اپنے فرزند شیخ ابوبکر کو شیخ شھاب الدین احمد بن عبدالرحمنؒ کے پاس لے گئے جو شہر تریم کے اکابر بزرگانِ دین میں سے تھے ۔ شیخ کے پاس پہونچ کر اپنے فرزند کی حفظِ قرآن اور قوتِ حافظہ سے متعلق دشواریوں کا ذکر کرنے لگے تو شیخ نے فرمایا کہ اس پر زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اس کے حال پر چھوڑدو ، وہ خود ہی اپنے آپ کو اس کے لئے وقف کرے گا اور اس کے معاملات بہت اعلیٰ ہوں گے ۔ شیخ شہاب الدینؒ کاکہنا ہی تھا کہ شیخ ابوبکر نے خود کو قرآن کے لئے وقف کردیا اور صرف چار ماہ میں قرآنِ مجید کے حفظ سے فارغ ہوئے ۔ بعد ازاں علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل کیلئے بڑھے اور فنون عقلیہ و نقلیہ میں مہارت حاصل کرلی اور ان علوم کے محقق کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔
شیخ ابوبکر بن سالمؒ نے امام نوویؒ کی المنھاج کو تین مرتبہ اور امام غزالیؒ کی احیاء العلوم کو چالیس مرتبہ اساتذۂ کرام کے پاس مکمل پڑھا اور اجازت حاصل فرمائیں اور کثیر علماء سے استفادۂ علمی فرمایا جن میں حبیب عمر باشیبانؒ ، شیخ شھاب الدین احمد بن عبدالرحمنؒ ، شیخ احمد باجحدبؒ ، شیخ عبداللہ باقشیر ؒ ، فقیہ و صوفی شیخ عمر بامخرمۃ اور شیخ معروف باجمال مشہور ترین ہیں ۔
اوائلِ عمر میں شیخ ابوبکر بن سالمؒ نے اپنی زندگی شہر تریم کے جنوب میں واقع ’’اللسک‘‘ نامی گاؤں میں بسر کی اور ہررات کئی میل پیادہ چل کر شہر تریم آکر آباء و اجداد کی مزارات کی زیارت کرتے اور مساجد میں نمازیں پڑھتے تھے ۔ آپؒ مساجد میں وضوء کا پانی بھرتے تھے اور جانوروں کی سیرابی کے لئے حوض میں پانی رکھ کر فجر سے پہلے اپنے گاؤں واپس لوٹتے تھے ۔ جوانی کی عمر میں شہر تریم واپس آئے لیکن چند سال کے قیام کے بعد جبکہ عمر مبارک ابھی تقریباً (ستائیس )۲۷ سال ہی تھی کہ آپ نے ’’عینات‘‘ نامی قریہ کو اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کیا اور جابسے، جہاں آپؒ نے تبلیغ دین ، علومِ شریعت کی تعلیم اور دعوت الی اﷲ جیسے فرائض انجام دیئے ۔ آپؒ نے عینات میں ایک مسجد اور ایک گھر تعمیر کروایا جہاں سے آپؒ نے تمام علوم سکھائے اور قوم کی روحانی صدارت و قیادت اور رشد و ہدایت کے اُمور کو انجام دیا ۔شیخ ابوبکرؓ کو اپنے اجداد کی طرح نبی اﷲ ھود علیہ السلام کی زیارت کا بہت شوق تھا اور سالانہ زیارت کی صدارت فقیہ المقدمؒ کے دور سے آپؒ کی اولاد میں منتقل ہوتی ہوئی شیخ شہاب الدینؓ تک پہنچی تھی ۔ یہاں تک کہ انھوں نے شیخ ابوبکر بن سالمؒ کو اس صدارت کا اہل یاب اور صدارت عطا فرمادی جو آج تک شیخ ابوبکر بن سالمؒ کی اولاد میں ہی جاری ہے ۔
شیخ ابوبکرؒ بہت ہی سخی اور رحم دل انسان تھے ۔ آپؓ اپنے مشہور مطبخ کی نگرانی خود ہی فرمایا کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے غرباء و مساکین میں تقسیم فرمایا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ لاتعداد مہمانوں کا کھانا الگ سے تیار کیا جاتا تھا ۔ آپ سال کے تین سب سے گرم ماہ کے روزے رہتے اور سخت مجاہدات کرتے اور عمر کے آخری پندرہ سال صرف دودھ اور قھوہ کے علاوہ کچھ اور غذا استعمال نہ فرمائی ۔ آپؒ متعدد کتب کے مصنف تھے اس کے علاوہ آپؒ نے رسول اﷲ ﷺ پر متعدد درودِ پاک بھی لکھا اور پڑھا ہے جس میں سے مشہور ’’درودِ تاج‘‘ ہے جو تمام عالم میں اور خصوصاً برصغیر میں بہ کثرت پڑھا جاتا ہے علاوہ ازیں آپؓ کا بہترین دیوان ہے جس میں عشق الٰہی میں ڈوبے ہوئے اشعار و قصائد ، حقیقی محبت ، علم اور حکمت سے لبریز کلام موجود ہے۔
آپ کے شاگردوں اور تلامذہ میں آپ کی اولادِ امجاد امام احمد بن محمد الحبشی صاحب الشعب ، امام عبدالرحمن بن محمد الجفری صاحب تریس ، امام عبدالرحمن البض صاحب الشحر ، سید یوسف بن عابد الحسنی المغربی ، علامہ محمد بن سراج الدین باجمال صاحب الغرفۃ ، امام جلال الدین المحلی صاحب تفسیر جلالین ، شیخ حبیب عبدالرحمن بن عقیل العطاس اور شیخ حسن بن احمد باشعیب وغیرہ جیسے عظیم ترین علمائے کاملین کی فہرست ملتی ہے ۔
سیدنا شیخ ابوبکر بن سالمؓ نے ۲۷ ذی الحجہ ۹۹۲؁ھ بروز اتوار اس دارِفانی کو خیرباد کیا اور دارالبقاء کے مسافر ہوئے۔ آپ کی تدفین عینات کے قبرستان میں عمل میں آئی اور مزارپرانوار پر گنبد بھی تعمیر کیاگیا جو زیارت گاہِ خلائق ہے۔ شیخ ابوبکر بن سالمؓ اپنی حیات میں ہی فرمایا کرتے تھے کہ میں اس ریت کے ٹیلوں میں اسرارِ الٰہی چھوڑ جاؤں گا جس میں میرا مدفن بنے گا اور اس زمانے سے آج تک آپؒ کی مزارِ مبارک کی خاک کو خاکِ شفاء اور دیگر برکات کے حصول کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ باعلوی سادات اور اولیاء اﷲ سے صحبت اور حصول برکات کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین و آلہٰ الطیبین