صحابه كرام كي زندگی عشق رسولؐ کی عملی تصویر

   

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نبی آخر الزماں ، محبوب کردگار وجہہ تخلیق کائنات کی عظیم ہستی کا عرفان حاصل تھا ، اس لئے وہ نہایت مؤدب اور دل و جان سے آپ ﷺ پر فدا تھے ۔ بارگاہ رسالت کی ہیبت و جلال کا یہ عالم تھا کہ صحابہ کرام آپ ﷺ کی محفل بابرکت میں جلوہ گر ہوتے تو وہ ایسے مؤدب ہوتے کہ اپنے جسم کو تک حرکت نہ دیتے گویا کہ وہ انسانی شکل میں جامد مجسمے ہیں اور ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ آپ کی محفل مبارک میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوا کوئی اپنی نگاہ اُٹھاکر دیکھنے کی تاب نہ رکھتے ۔
امیرالمؤمنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا گیا آپ حضرات کس طرح حضور پاک ﷺ سے محبت کیا کرتے تھے ۔ تو آپؓ نے فرمایا : آپ ﷺ ہمارے نزدیک ہمارے مال اور اولاد نیز مانباپ سے زیادہ محبوب تھے ۔ آپ ﷺ شدت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھے۔
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا یہ فرمان درحقیقت نبی اکرم ﷺ کے ان ارشاد گرامی کی تشریح ہے جن میں آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اس کے والد ( مانباپ ) اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ( البخاری ) نیز آپ کا فرمانِ عالیشان ہے : تین چیزیں جن میں ہوں گی وہ ان کے ذریعہ ایمان کی حلاوت و چاشنی کو پالے گا ۔ (۱) اﷲ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔(۲) اور وہ کسی سے محبت رکھے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت رکھے ۔ (۳) بعد اس کے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو کفر سے بچایا ہے وہ کفر کی طرف لوٹنے کو ایسا ہی ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے ۔
( بخاری ، مسلم ، کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان )
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سوانح حیات کا ایک ایک صفحہ ، ایک ایک سطر ، ایک ایک حرف ، ایک ایک نقطہ عشق مصطفیٰ ﷺ سے لبریز و معمور ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ اُحد کے دن تیر پھینک رہے تھے اور نبی اکرم ﷺ اُن کے پیچھے سے تیر مرحمت فرمارہے تھے جب کبھی ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیراندازی کرتے نبی اکرم ﷺ اپنی نگاہ مبارک دراز فرماکر ملاحظہ فرماتے کہ تیر کہاں گرا ہے اور حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے سینے کو دراز کردیتے اور عرض کرتے : اس طرح میرے ماں باپ آپ پر قربان ہیں آپ ﷺ کو کوئی تیر نہیں لگے گا ۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے سامنے ہے اور ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے لئے اپنی ذات کاحصار و فصل بنائے ہوئے تھے اور کہہ رہے کہ میں بہت سخت ہوں یا رسول اﷲ ! ﷺ آپ اپنی ( ظاہری ) ضروریات میں مجھے حکم دیجئے اور جو آپ چاہتے ہیں اُس کا حکم دیجئے ۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک رات وہ نماز پڑھ رہے تھے اس اثناء میں حضرت نبی کریم ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مجھ پر گزر ہوا ، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’سل تعطہ ‘‘ مانگو جو دعاء کروگے قبول ہوگی ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ اس وقت آپ نے کیا دعاء کی تھی ؟
اُنھوں نے کہا : بلاشبہ میری ایک ایسی دعاء ہے جس کو میں کبھی ترک نہیں کرتا وہ یہ ہے : ’’اے اﷲ ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جو کبھی ختم نہیں ہوتا ، جدا نہیں ہوتا اور ایسی نعمت کا سوال کرتا ہوں جو کبھی ختم نہیں ہوتی ، اور ایسی آنکھ کی ٹھنڈک جو کبھی منقع نہ ہو اور سب سے اعلیٰ جنت جنت الخلد میں نبی اکرم ﷺ کی رفاقت و معیت کا سوال کرتا ہوں‘‘۔ ( ابونعیم )
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین وہ ذوات قدسیہ ہیں جن کو نبی کریم ﷺ کی رفاقت و محبت نصیب ہوئی اور وہ صحبت ان کے لئے جنت سے زیادہ عزیز تھی ، اس لئے صحابہ کرام علیہم الرضوان جنت میں آپ ﷺ کی رفاقت اور معیت کےلئے دعائیں کرتے تھے ۔ جن کی یہ کیفیت ہو کہ وہ جنت جیسی اعلیٰ نعمت میں بھی نبی اکرم ﷺ کے دیدار جمال رُخ زیبا ، آپ کی ہمکلامی اور رفاقت کے بغیر جی نہیں سکتے ان بزرگوں پر نہ جانے وصال مبارک کا صدمہ کس طرح کٹھن رہا ہوگا ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ اُن کو یمن کی طرف روانہ کئے تو اُن کو وصیت کرتے ہوئے آپ ﷺنکلے اور آپ ﷺان کی سواری کے سایہ میں چل رہے تھے جب اپنی وصیت سے آپ ﷺفارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا : ’’اے معاذ ! شاید کہ تم مجھ سے اس سال کے بعد ملاقات نہ کرسکو اور شاید کہ تم میری اس مسجد اور میری قبر پر آؤ گے ‘‘ ۔ یہ سننا ہی تھا حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ پھر آپ ﷺ مدینہ منورہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمائے : ’’میرے سب سے زیادہ حقدار متقی لوگ ہوں گے جو کوئی وہ ہوں اور جہاں کہیں وہ ہوں ‘‘ ۔
نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے تاقیامت اپنے عشاق کو یہ مبارک پیغام دیا کہ وہ کوئی بھی ہو ، کسی رنگ و نسل سے ہو ، کسی بھی سرزمین سے تعلق رکھتے ہوں ، اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گے اورپرہیزگاری کی زندگی بسر کریں گے تو وہ قیامت میں سرکاردوعالم ﷺ کی رفاقت سے سرفراز ہوں گے ۔
نبی کریم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا چلو ہم حضرت اُم ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ملاقات کرتے ہیں جس طرح نبی کریم ﷺ اُن کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے ۔ جب آپ دونوں اُن کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں تو آپ دونوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا : کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے وہ نبی اکرم ﷺ کے لئے بہتر ہے تو انھوں نے کہا بلاشبہ میں یہ جانتی ہوں لیکن بات یہ ہے کہ آسمان سے وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ حضرت اُم ایمن کی گفتگو نے آپ دونوں کو برانگیختہ کردیا آپ دونوں حضور پاک ﷺ اور نزول وحی کو یاد کرکے رونے لگے ۔ اور جب کبھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی اکرم ﷺ کا ذکر کرتے تو ان کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے کوئی ساعت ایسی نہیں گزرتی مگر میں اپنے حبیب کا دیدار کرتا ہوں پھر آپ خوب روئے ۔ (ان واقعات کا ذکر کتاب ’’سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ، شمائل الممیدۃ ، خصالہ الطیبہ ‘‘ میں ہے )