صدر امریکہ کی دھمکیاں

   

دوائیں زہر ہیں، تیمار دار قاتل ہیں
ہمارا اب تو گذارا ہے بس دعاؤں پر
صدر امریکہ کی دھمکیاں
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ایران کو دی جانے والی دھمکیاں تشویشناک ہیں۔ ان کا کہنا غور طلب ہیکہ امریکہ نے ایران کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ نہیں کیا ہے لیکن اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو ایران کا نام و نشان مٹ جائے گا لیکن وہ جنگ کرنا نہیں چاہتے۔ اگر صدر ٹرمپ جنگ نہیں چاہتے تو انہیں فوری مذاکرات کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی کی جوابی وارننگ سے ظاہر ہوتا ہیکہ ایران کو اپنی دفاعی صلاحیتوں پر کامل یقین ہے لیکن امریکی خطرے کا بھرپور جواب دینے سے قبل ایران کو خطہ کی سلامتی کے بارے میں بھی سوچنا ضروری ہے۔ پاسداران انقلاب اپنے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے امریکی ڈرون کو مار گرایا۔ اس بات کی تصدیق امریکی فوج کے کمانڈر نے بھی کردی تو اس سے واضح ہورہا ہیکہ ایران اور امریکہ کشیدہ تعلقات جنگ کے دہانے کے قریب لے جارہے ہیں۔ اگر امریکہ نے اپنے ڈرون گرائے جانے کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ناعاقبت اندیشانہ قدم اٹھایا ہوتا تو پھر کشیدگی اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی۔ ٹرمپ نظم و نسق نے فوری طور پر جوابی کاروائی کے فیصلہ سے دستبرداری اختیار کرکے کچھ وقت کیلئے حالات کو مزید بگڑنے سے روک لیا ہے۔ اگر ڈرون مار گرائے جانے کے فوری بعد امریکی کارروائی ہوتی تو اس سے امریکی اور ایرانی فوج کے درمیان فوجی تصادم کا سنگین خطرہ بڑھ جاتا۔ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی خاطر ٹرمپ نظم و نسق نے اس خطہ میں معاشی تحدیدات کی مہم چلا کر پہلے ہی سے ایران کو مضطرب کر رکھا ہے۔ غلط اندازے قائم کرنے غلط فیصلے کرنے سے جنگ کی نوبت آجائے تو اس کا ہر دو کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ تاہم امریکہ میں ٹرمپ نظم و نسق کی جانب سے بدلتی ہوئی کروٹیں اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ ایک کھلی جنگ کا امکان قوی ہوتا جائے گا۔ امریکہ کو اپنی فوجی طاقت اور عالمی بالادستی پر ناز ہے اس لئے وہ طاقت کے بل پر دیگر ممالک کو ڈرا دھمکا کر اپنی بات منوانے کی خبط میں مبتلاء ہے۔ ایران پر گذشتہ ایک سال سے معاشی تحدیدات کا دباؤ ڈالنے کے باوجود ایران نے مضبوط عزم کے ساتھ جوابی اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ سوال یہ ہیکہ ایک طرف ٹرمپ نظم و نسق ایران کے خطرات کا حوالہ دے کر اپنی کارروائیوں کو جائز قرار دیتے ہوئے عالمی تائید کے حصول کیلئے کوشاں ہے تو دوسری طرف پاسداران انقلاب نے امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی کارروائی کا مقابلہ کرنے کی تیاری کا اظہار کیا ہے۔ امریکی ڈرون کو مار گراتے ہوئے امریکہ کو یہ بتادیا ہیکہ پاسداران انقلاب پوری طرح چوکس ہے۔ ڈرون حملے کی کوشش کے ذریعہ ایران کی نگرانی کرنے کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانا تھی۔ امریکہ کی شکایت ہیکہ ایران نے حال ہی میں عمان سے روانہ ہونے والے دو آئیل بردار جہازوں پر حملے کئے تھے۔ اس الزام کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے حملے کا حکم دیکر واپس لے لینا صرف دھمکی دینے کی کوشش ہے تو اس صورتحال کو فوری بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں ممالک باقاعدہ تصادم کے دہانے پر پہنچ جائیں تو پھر ہر دو کیلئے اس کھیل کے پیچیدہ اور سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ دونوں ملکوں کی اس کشیدگی سے نکلنے کا کوئی آسان سفارتی راستہ تو نظر نہیں آتا مگر اس کو مزید خطرناک حد تک لے جانے سے گریز کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا امریکہ اور ایران کو اپنی کشیدگی کو مزید بڑھانے سے گریز کرنا چاہئے۔ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ جائیں گے تو یہ ہر دو کی طرف سے بہت بڑی غلطی کہلائے گی۔ جنگ ایک ایسا المیہ ہوگا جس کے نتائج کی فی الحال کوئی بھی پیشن گوئی نہیں کرسکتا۔ اقوام متحدہ کو فوری مداخلت کرتے ہوئے امریکہ، ایران کشیدہ صورتحال کو کم کرنے کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے اندر ہی کئی قائدین نہیں چاہتے کہ امریکہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگی محاذ کھول دے۔ ایران کے ساتھ جنگ کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا ہر دو ممالک کو اشتعال انگیزی سے بچتے ہوئے مذاکرات کو ترجیح دینی چاہئے۔
بہار میں دماغی بخار سے اموات
بہار میں دماغی بخار سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب تک 136 بچے فوت ہوچکے ہیں اور ہزاروں بچے دواخانوں میں زیرعلاج ہیں۔ بہار کا ضلع مظفرپور دماغی بخار کی وباء سے زیادہ متاثر ہے۔ یہ ضلع ہمیشہ دماغی بخار کی وباء کا شکار رہا ہے۔ سال 2000ء اور 2010ء کے درمیان میں تقریباً 1000 بچے اس مرض سے فوت ہونے کے بعد بھی حکومت بہار اور مرکز کے وزارت صحت نے اس خطرہ سے معصوم بچوں کو بچانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ گذشتہ کئی برس سے یہاں بچوں کو لاحق امراض کو ختم کرنے کیلئے حکومت نے سنجیدگی سے کام نہیں لیا۔ سال 2014ء میں ہی اس طرح کے سانحہ سے 357 بچے فوت ہوئے تھے۔ بچوں کو دماغی بخار سے محفوظ رکھنے کیلئے بڑے پیمانہ پر ٹیکہ اندازی کی مہم چلانے ریاست میں صحت عامہ کو یقینی بنانے کیلئے صاف و صفائی کے کام انجام دینے پر توجہ دینے کی ضرورت کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے اس بحران پر توجہ دیتے ہوئے دواخانہ کا دورہ کیا تو انہیں معصوم بچوں کے والدین کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ بہار میں غربت، فاقہ کشی اور تغذیہ کی کمی نے غریب خاندانوں کی معصوم جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ صفائی پر دھیان نہ دینے اور ٹیکہ اندازی کی مہم کو لاپرواہی سے چلانے کی وجہ سے عوام میں بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ نتیجہ میں ان علاقوں میں دماغی بخار کی وباء پھیل گئی جہاں غریب عوام کی معاشی صورتحال ابتر ہے اور ان کو حکومت کی جانب سے بہتر ہیلت انفراسٹرکچر بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ معصوم بچوں کے والدین کی جانب سے بیمار بچوں کو فوری دواخانہ سے رجوع کرنے میں تاخیر اور ابتدائی صحت نگہداشت سنٹرس میں ناقص علاج یا نظم و ضبط کی تساہلی سے ہی دماغی بخار کی وباء کی صورتحال نازک رخ اختیار کرلی ہے۔ حکومت بہار اور مرکز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قومی انسانی حقوق کمیشن نے ملک میں عوامی صحت انفراسٹرکچر کی فراہمی میں کوتاہی کا نوٹس لیا ہے تو اس سلسلہ میں اسے آخر تک اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہئے۔