صدر جمہوریہ ہند کا انتخاب

   

ملک کے آئندہ صدر کے انتخاب کیلئے آج رائے دہی ہوگی ۔ ملک بھر میں اس کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ جہاں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کی جانب سے دروپدی مرمو کو امیدوار بنایا گیا ہے وہیں اپوزیشن کی جانب سے یشونت سنہا کو میدان میں اتارا گیا ہے ۔ جہاں تک اس انتخاب کیلئے درکار ارکان اسمبلی کی تعداد کا سوال ہے تو اس معاملے میں این ڈی اے کو واضح سبقت حاصل ہوگئی ہے ۔ این ڈی اے کی امیدوار شریمتی دروپدی مرمو کا انتخاب تقریبا یقینی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے صدر جمہوریہ کے امیدوار کے انتخاب میں تاخیر کی گئی ۔ اس کے بعد کچھ امیدواروں نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ بالآخر یشونت سنہا کو امیدوار بنایا گیا ۔ ایسا تاثر عام ہے کہ یشونت سنہا کو بھی ضابطہ کی کارروائی کیلئے میدان میں اتارا گیا ہے ۔ ایک طرح سے این ڈی اے کی یہ ایک اہم کامیابی ہوگی جو آئندہ پارلیمانی انتخاب سے قبل اہمیت کی حامل ہوگی ۔ اسی طرح نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں بھی بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو سبقت حاصل رہے گی ۔ بی جے پی کی جانب سے گورنر مغربی بنگال جگدیپ دھنکر کو امیدوار نامزد کردیا گیا ہے جب کہ اپوزیشن نے ابھی تک اس پر کوئی غور و خوض تک نہیں کیا ہے ۔ جس وقت صدارتی انتخاب کی تیاریاں شروع ہوئی تھیں اس وقت یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ این ڈی اے کیلئے یہ مقابلہ بہت سخت ہوگا اور اپوزیشن کی طاقت کا مظاہرہ کیا جائیگا ۔ اس کو انتہائی اہمیت کا حامل مقابلہ بھی کہا جا رہا تھا ۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے اتحاد کے ذریعہ اس انتخاب میں این ڈی اے کو پریشان کرسکتی ہیں اور اس کیلئے مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔ تاہم بی جے پی نے صدارتی انتخاب کا عمل شروع ہوتے ہی سیاسی داو پیچ کا آغاز کردیا اور مہاراشٹرا میں شیوسینا حکومت کو زوال کا شکار کرتے ہوئے اس میں پھوٹ کروادی ۔ شیوسینا کے بیشتر ارکان اسمبلی اصل پارٹی سے منحرف ہوگئے اور باغی لیڈر ایکناتھ شنڈے کی قیادت میں بی جے پی کی تائید سے نئی حکومت تشکیل دیدی گئی ۔ اس کا بھی صدارتی انتخاب پر اثر ہوگا ۔
جن ارکان نے ایکناتھ شنڈے کے ساتھ مل کر بغاوت کی اور نئی حکومت تشکیل دینے میں اہم رول ادا کیا اب ان ارکان کی بھی بی جے پی امیدوار کو صدارتی انتخاب میں تائید ایک فطری اور لازمی امر ہے ۔ اسی طرح این ڈی اے کی جانب سے قبائلی طبقہ سے تعلق رکھنے والی شریمتی دروپدی مرمو کو امیدوار بناتے ہوئے بھی سیاسی فیصلہ کیا گیا ۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور اوڈیشہ کی بیجو جنتادل کی جانب سے قبائلی خاتون امیدوار کی تائید کردی گئی جس سے اپوزیشن کی صفوں میں استحکام کی بجائے دراڑ پیدا ہوگئی ۔ ملک کی کچھ دوسری جماعتوں کی جانب سے بھی بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اس کے صدارتی امیدوار کی تائید کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ان میں آندھرا پردیش میں برسر اقتدار وائی ایس آر کانگریس بھی شامل ہے ۔ وائی ایس آر کانگریس کی سیاسی مجبوریاں ہیں اور وہ بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت سے ٹکراؤ کی راہ اختیار نہیں کرسکتی ۔ یہی صورتحال کے سی آر کی بھی تھی جو ابتداء میں انہوں نے اختیار کی تھی تاہم جب بعدتلنگانہ میں بی جے پی نے اقتدار کی دعویداری پیش کی تو کے سی آر مجبورا بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کا حصہ بننے لگے ہیں۔ مہاراشٹرا میں ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی جو شیوسینا باقی رہ گئی ہے اس نے بھی بحالت مجبوری دروپدی مرمو کی تائید کا اعلان کردیا ہے ۔ اس طرح اپوزیشن کے امیدوار یشونت سنہا کے امکانات کو مسلسل نقصان ہوا ہے اور بی جے پی اپنی سیاسی بساط کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔
حالانکہ یشونت سنہا نے بھی اپوزیشن اقتدار والی کئی ریاستوں کا دورہ کیا ہے اور کئی قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں لیکن جو عددی طاقت ہے وہ ان کے حق میں نہیں ہے ۔ یشونت سنہا اپنے بیانات کے ذریعہ کچھ بی جے پی کی حلیف جماعتوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی جماعتوں کی سیاسی مجبوریاں ہیں کہ وہ بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ جو جماعتیں اپنی اپنی جگہ مستحکم ہیں انہوں نے حالانکہ یشونت سنہا کی تائید کا اعلان کیا ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جس انتخاب کے تعلق سے یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ انتہائی سخت مقابلہ ہوگا اور این ڈی اے کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہ ایک طرح سے یکطرفہ دکھائی دے رہے ہے۔