صدر ٹرمپ کا دورۂ ہند

   

صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہند کو ایک ملک کے سربراہ کے دورہ سے زیادہ سیاحتی دورہ قرار دیا جارہا ہے ۔ دو روزہ دورہ کے پہلے دن صدر ٹرمپ نے احمد آباد کے نئے موٹیرا اسٹیڈیم میں وزیراعظم مودی کی ستائش کی اور اپنی تقریر میں پاکستان کا بھی ذکر کیا ۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے خوشگوار تعلقات کے حوالے سے دہشت گردی سے نمٹنے میں کئے گئے اہم اقدامات کا ذکر کیا تو مودی کے بھوئیں چڑھ گئیں حالانکہ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم مودی کی جانب سے کئے گئے انتظامات اور استقبال کا ذکر کرتے ہوئے خوشی ظاہر کی ۔ آگرہ میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ممتاز محل کی محبت کی یادگار تاج محل کا مشاہدہ کیا اور اس پرکشش عمارت کی خوبصورتی سے بے حد متاثر ہوئے ۔ مودی حکومت کے پاس مسلم حکمرانوں کی یادگاریں اہمیت نہیں رکھتی لیکن اس حکومت کے پاس سوائے ان یادگاروں کو عالمی سطح پر نمایاں کرنے کے سوا کوئی کارنامہ ہی نہیں ہے ۔ صدر ٹرمپ نے اپنے دورہ کے دوسرے دن دہلی کے حیدرآباد ہاوز میں وزیراعظم مودی سے بات چیت کی ۔ یہاں بھی ٹرمپ کے استقبال کے لیے حیدرآباد کے حضور نظام میر عثمان علی خاں کی جانب سے تعمیر کردہ تاریخی عمارت حیدرآباد ہاوز کا ہی انتخاب کرتے ہوئے صدر امریکہ ٹرمپ کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس ملاقات میں صدر ٹرمپ نے ہندوستان کو کچھ نہیں دیا صرف ہندوستان سے لیا ہے اور 3 بلین امریکی ڈالر کے معاہدوں میں دفاعی ساز و سامان کی فروخت کے لیے امریکی بزنس اگزیکٹیو پر یادداشت مفاہمت پر دستخط کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ کہا تو یہ جارہا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنے دورہ کے دوران تجارتی معاہدے کریں گے لیکن اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا ۔ ٹرمپ نے اپنے دورہ کو نہایت ہی تعمیری قرار دیا ۔ لیکن ٹیرف کے مسئلہ پر دونوں جانب پائی جانے والی تلخی برقرار ہے ۔ صدر ٹرمپ کا دورہ ہند ایک ایسے وقت ہوا جب دارالحکومت دہلی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فرقہ پرستوں کے حملے ہوئے پرتشدد کارروائیاں ، آتشزنی اور ہلاکتیں ہوئیں ۔ صدر ٹرمپ نے دہلی کے واقعات پر صرف اتنا کہا کہ مودی حکومت اس سے نمٹے گی ۔ کہا جارہا تھا کہ ٹرمپ مودی سے اپنی ملاقات میں سی اے اے کے مسئلہ کو بھی زیر بحث لائیں گے ۔ ہندوستان میں مذہبی آزادی کو سلب کرلینے والے قانون کا مسئلہ اٹھائیں گے ۔ لیکن ٹرمپ نے مذہبی آزادی سے متعلق مودی کے بیان پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ ٹرمپ نے حسب عادت ریاڈیکل اسلام کا ذکر کرتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے باہمی تعاون پر زور دیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر ٹرمپ بحیثیت لیڈر اپنے اس دورہ کو کامیاب بناتے لیکن انہوں نے اپنے ملک میں آئندہ صدارتی انتخاب میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ایک انتخابی مہم کے حصہ کے طور پر دورہ کیا ۔ امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں یا ہندوستانی نژاد امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے وزیراعظم مودی کی دعوت پر گجرات کا دورہ کیا ۔ لیکن ان کے اس دورہ پرامریکہ میں ہونے والی شدید تنقیدوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار بیرنی سینڈرس نے ٹرمپ کے دورہ ہند پر تنقید کی اور دفاعی معاہدوں کو غیر ضروری قرار دیا ۔ امریکی صدر کو دفاعی معاہدوں سے زیادہ ہندوستان کے ساتھ ماحولیات میں آنے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کو پارٹنر بنانے کی ضرورت تھی ۔ ہتھیاروں کی فروخت سے زیادہ اس وقت دنیا کو ماحولیات کی بہتری پر توجہ دینی ہے ۔ فضائی آلودگی ، اچھی رنیویبل انرجی کی پیداوار ، روزگار اور ہمارے جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنانا سب سے اہم بات ہے لیکن ٹرمپ نے ہندوستان کو کچھ نہیں دیا ۔ امریکی صدارتی انتخاب کے دوران اگر ڈیموکریٹک پارٹی کے 78 سالہ امیدوار بیرنی سینڈرس کو سبقت حاصل ہوتی ہے تو وزیراعظم مودی کے ساتھ ٹرمپ کی قربت ضائع ہوجائے گی ۔ 3 نومبر 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب صدر ٹرمپ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں ۔ اپنی ناکامی کے احساس کے ساتھ ہی انہوں نے وزیراعظم مودی کا سہارا لے کر امریکہ میں ہندوستانیوں کے ووٹوں کو محفوظ کرلینے کی کوشش کی ہے ۔ اب کی بار مودی سرکار کے جواب میں اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ دے کر ہندوستان کے 100 سے زائد کروڑ روپئے ضائع کر کے دوستی نبھائی گئی ، جس کو ہندوستان کے ٹیکس دہندگان ہرگز معاف نہیں کرسکتے ۔۔