صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کیلئے پھر پیشکش

,

   

ہندوستان کا موقف ثالثی کے خلاف، امریکی صدر کی چوتھی مرتبہ پیشکش بھی ناکام ہونے کا اندیشہ

واشنگٹن ۔ 22 ۔ جنوری (سیاست ڈاٹ کام ) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کشمیر کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان پیش رفت کو بہت قریب سے دیکھتا رہا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ اس معاملے میں مدد کے لیے بھی تیار ہے۔سوئٹزرلینڈ کے شہر داووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) میں شرکت کے لئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی پہنچے ہیں جہاں ان کی ملاقات امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان باضابطہ بات چیت سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کے لئے تجارتی اور سرحدی امور مذاکرات کے اہم موضوع ہیں جبکہ عمران خان نے افغانستان میں امن کے عمل کو اپنی پہلی ترجیح بتایا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور اور امریکا کا موقف ایک ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا، ’’تجارتی امور پر بہت زیادہ توجہ مرکوز ہوگی، ہم بعض سرحدی علاقوں میں بھی ایک ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور ہم اس حوالے سے کشمیر پر بھی بات چیت کر رہے ہیں کہ اس پر بھارت اور پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ اور اگر اس بارے میں ہم کوئی مدد کر سکتے ہیں تو ضرور مدد کریں گے۔ ہم اسے بہت قریب سے دیکھتے رہے ہیں اور اس کے ہر پہلو پر نظر رہی ہے۔‘‘امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کے لیے اس سے پہلے بھی بات کر چکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کی وہ کس طرح اس میں مدد کریں گے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر ایک اہم تنازع ہے اورگزشتہ برس بھارت نے جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے تب سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر نے تب سے کشمیر پر یہ چوتھی بار مدد کی پیشکش کی ہے، لیکن ہندوستان کا موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ ہے اور وہ تیسرے فریق کو شامل کرنے پر راضی نہیں۔علاوہ ازیںپاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات اہم ہیں لیکن اس وقت ان کی ترجیح افغانستان ہے۔ انہوں نے کہا، ’’چونکہ افغانستان کے تعلق سے پاکستان اور امریکا دونوں کو تشویش ہے اس لیے بالحقیقت اہم مسئلہ تو افغانستان ہے۔ دونوں ممالک کو افغانستان میں قیام امن میں دلچسپی ہے اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت چاہتے ہیں۔‘‘