صوفی باصفا‘ عالم با عمل صوفی اعظم پیرؒ

   

سید مصطفی سعید قادری
اولاد غوث اعظم کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھنے والی بے شمار شخصیتوں نے علاقہ دکن کی فضا کو علمی و روحانی فیضان سے معطر و منور کیا اُن ہی میں ’’مصباح المفسرین‘‘ ، ’اعظم المشائخ‘‘ ،’’قاضی صاحب قبلہ‘‘ اور’’ حضرت صوفی اعظم پیر‘‘ کے مبارک القاب سے جانی پہچانی بزرگ شخصیت حضرت علامہ قاضی سیدشاہ اعظم علی صوفی اعظم ؔقادری قدس سرہ کی خدمات جلیلہ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آپ اپنے والد ماجد حضرت سید الصوفیہؒ و والدئہ ماجدہ ؒ دونوں کی طرف سے حضور غوث اعظمؓ سے نسبی تعلق رکھتے ہوئے نجیب الطرفین سادات خاندان کے چشم و چراغ کی حیثیت سے ۱۶, ربیع المنور ۱۳۵۰؁ھ میں تولد ہوئے تو والد ماجدؒ نے مادئہ تاریخ ولادت ’’صوفی اعظم محبوب سبحانی‘‘ ارشاد فرمایا۔ والد ماجد ہی سے علوم دینیہ و سلوک صوفیہ کی تکمیل کے بعد جمیع سلاسل میں خلافت و اجازت سے سرفراز ہوئے و نیز مشرقی علوم میں جامعہ نظامیہ اور عصری علوم میں سٹی کالج و عثمانیہ یونیورسٹی کی تعلیم سے آراستہ ہونے کے باعث اپنے میں قدامت و جدیدیت کا حسین امتزاج رکھتے تھے۔ عربی‘ اردو‘ فارسی‘ انگریزی زبانوں پر کامل دسترس کے ساتھ ان زبانوں میں باہم تراجم کی مہارت رکھتے تھے۔چنانچہ ایک بہترین اسکالر‘ مترجم‘ مقرر‘ مفسر‘ مصنف‘ مولف‘ خطیب و ادیب اور کہنہ مشق شاعر و تاریخ گوئی کے ماہر کی حیثیت سے عوام و خواص میں یکساں مقبول تھے۔ آپ کی قلمی خدمات کے گواہ زائد از (۳۰۰) مطبوعات ہیں جن میں تقریباً (۵۰) کتب بزبان اردو‘ انگریزی‘ فارسی اور عربی کے تراجم‘ مستقل تصنیفات و تالیفات کی شکل میں مقبول عام ہوچکی ہیں نیز (۹۵) سالہ قدیم عظیم دینی ‘ علمی و اصلاحی ماہنامہ رسالہ صوفی اعظم کا احیا آپ کی صحافتی خدمات پر دلیل ہیں۔ آپ کے ملک و بیرون مختلف اخبارات ‘ رسائل و جرائد میں مطبوعہ (۴۰۰) مضامین اس کے علاوہ ہیں۔آپ کا مجموعہ کلام ’’اعظمیات‘‘ شائع ہوکر مقبول عام ہوچکا ہے‘ فارسی کلام زیر طبع ہے۔ بے شمار تلامذہ ‘ سیکڑوں خلفاء‘ ہزاروں مریدین و طالبین ،معتقدین اور لاکھوں محبین کو علم و عرفان کی دولت بانٹنے کے بعد بتاریخ ۴؍ذیقعدہ ۱۴۴۱؁ھ شب جمعہ ذکر جہری کرتے ہوئے کلام پاک سنتے اور مسکراتے ہوئے بعمر (۹۱) سال آپ نے وصال حق فرمایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔