طالبان ۔ امریکہ معاہدہ

   

قسمیں وعدے پیار وفا ، سب باتیں ہیں باتوں کا کیا
کوئی کسی کا نہیں یہ جھوٹے ناطے ہیں ناطوں کیا
طالبان ۔ امریکہ معاہدہ
افغانستان کی سرزمین کو پرامن بنانے اور افغان عوام کو ایک خوشحال پرامن ماحول دینے کی نیت سے طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے طئے پاتے ہیں ۔ دوحہ قطر میں دونوں فریق نے ایک دوسرے کے خیالات و جذبات کا احترام کیا ہے ۔ طالبان کو راضی کرانے میں امریکہ کی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں تو آگے چل کر اس معاہدہ کی پاسداری کرنے میں طالبان اور امریکہ دونوں کو آگے آگے رہنا ہوگا ۔ امریکہ اور طالبان کے معاہدے میں یہ طئے پایا ہے کہ طالبان کے طرز عمل اور کارروائیوں میں بہتری آئی ہے اور وہ اس معاہدے کی پاسداری کرتے ہیں تو آئندہ 14 ماہ کے اندر امریکہ کی فوج افغانستان کا تخلیہ کردے گی ۔ افغانستان میں ایک منتخب حکومت صدر اشرف غنی کے تحت کام کررہی ہے ۔ امریکہ نے اس سرزمین پر برسوں جنگی محاذ پر اپنی توانائی صرف کرنے کے بعد یہاں سے پرامن طریقہ سے نکل جانے کو ہی غنیمت سمجھا ہے ۔ طالبان کے ساتھ گذشتہ تقریبا ایک سال سے بات چیت ہورہی تھی ۔ یہ معاہدے بلا شبہ امریکہ کی طویل جنگ کا اختتام ہوں گے لیکن اس طرح کے معاہدے آگے چل کر کامیاب ثابت ہوں گے ۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ امریکہ کے ساتھ طالبان کا رویہ شروع سے سخت تھا ۔ لیکن دیر سے ہی سہی طالبان نے امریکہ کے ساتھ بات چیت کی میز پر پہونچکر معاہدے کرنے سے اتفاق کیا ۔ اس معاہدے کے بعد بھی اگر رکاوٹیں پیدا ہوں تو پھر اچھے نتائج کی توقع کرنا فضول ہوگا ۔ تقریبا دو دہوں کے دوران امریکہ میں 3 صدور تبدیل ہوئے ۔ جارج بش ، کلنٹن ، اوباما کے دور میں تمام فریقوں کے درمیان غیر یقینی اور عدم اعتماد کی فضا ہی چھائی رہی ۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ کے نظم و نسق نے امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیابی حاصل کی تو امید تو یہی پیدا ہوگی کہ آنے والے 14 ماہ کے دوران افغانستان میں ایک پرامن ماحول پیدا ہوگا ۔ امن کی بحالی کی شرط پر ہی امریکی فوج کی موجودگی یا روانگی کا فیصلہ ہوگا ۔ اب سوال یہ ہے کہ افغانستان میں امن کے باوجود امریکہ نے اپنی فوج کا تخلیہ نہیں کیا تو کیا ہوگا ؟ یا پھر امریکی فوج اپنی موجودگی سے بیزار آچکی ہے تو وہ یہاں سے نکل جانے کو ہی ترجیح دے گی چاہے افغانستان میں باقاعدہ امن قائم ہوجائے یا نہیں ۔ امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں بھاری خسارہ سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے ۔ ویتنام میں اسے حاصل ہونے والا تجربہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ افغانستان سے بھی واپس ہونے کا فیصلہ کرے ۔ اس معاہدہ کو طالبان کی کامیابی بھی قرار دیا جارہا ہے ۔ افغانستان میں ایک جمہوری نظام قائم کرنے امریکہ کی کوششیں کس حد تک کامیاب بھی ہوتی ہیں ۔ یہاں خواتین اور اقلیتوں کے لیے اچھے مواقع بھی حاصل ہورہے ہیں جب کہ طالبان نے خواتین خاص کر لڑکیوں کو اسکول کی تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی اور خواتین کو عوامی زندگی سے نکال کر پردہ نشین کی زندگی گذارنے کے لیے زور دیا تھا ۔ اب اس طرح کی کارروائیاں کمزور ہوگئی ہیں ۔ طالبان سے امن کی بات چیت کو کامیاب بنانے میں بین الاقوامی نمائندوں نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ اس امن معاہدے کو پوری دیانتداری سے روبہ عمل لایا جائے تو افغانستان کے مستقبل کے سیاسی روڈ میاپ کی راہ ہموار ہوگی ۔ امریکہ کو اس معاہدہ کی رو سے 10 مارچ تک اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ اس میں طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لانی ہوگی ۔ جن قیدیوں کو رہا کیا جائے گا ان کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ افغان معاشرہ میں پرامن طریقہ سے رہیں اور امریکی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ پیدا کرنے والی کارروائیوں میں ملوث نہ ہوں ۔ امریکہ نے طالبان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں ان پابندیوں کو بھی 27 اگست 2020 تک ختم کرنے ہوں گے ۔ طالبان کے لیے بھی ضروری ہوگا کہ وہ القاعدہ یا کوئی اور تنظیم سے رابط نہ رکھیں اور افغانستان کی سرزمین کو اس طرح کی تنظیموں کی پناہ گاہ نہ بنائیں ۔ دوحہ میں حکومت قطر کی کوششیں سے ہونے والے اس معاہدہ سے یہی امید کی جاتی ہے کہ طالبان اور امریکہ آگے بھی اپنے مذاکرات کو کامیاب بناتے ہوئے معاہدے کے مطابق پیشرفت کریں گے ۔ اس سے افغانستان میں امن قائم ہوگا اور افغان عوام کو بڑی راحت حاصل ہوگی ۔ بہر حال یہ معاہدہ امریکہ کی شکست سے زیادہ طالبان کی فتح پر مرکوز ہے ۔۔