ظلم و ستم سے اور بھی بیباک ہوگئے

,

   

مسکان خاں … مقابلہ دل ناتواں نے خوب کیا
نفرت کے خلاف مزاحمت وقت کا تقاضہ

رشیدالدین
’’گیدڑ کی سو دن کی زندگی سے شیر کی ایک کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے‘‘ حوصلہ پیدا کرنے والا یہ جملہ اب محض فلمی ڈائیلاگ بن کر رہ گیا ہے۔ عملی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ زمانہ چاہے کوئی ہو ہر دور میں حق اور باطل کا معرکہ جاری رہا۔ یوں تو حق ہمیشہ غالب ہونے کیلئے ہے لیکن بسا اوقات حوصلہ کی کمی اور مصلحت نے باطل کو سر اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ تاریخ حق اور باطل کے معرکوں سے بھری پڑی ہے۔ حق نے تعداد کی کمی کے باوجود باطل طاقتوں پر فتح حاصل کی، وہ اس لئے کہ حق کے ساتھ ہمیشہ سرفروشی کا جذبہ کارفرما رہا۔ حق کی سربلندی کا جذبہ جب جنون کی شکل اختیار کرلے تو تعداد اور طاقت کوئی معنی نہیں رکھتے۔ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام جیسی عظیم نعمت اور طاقت رکھنے کے باوجود دنیا بھر میں مسلمان ڈر اور خوف کے عالم میں اپنے تحفظ کیلئے دوسروں سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ وہ قوم جو کبھی دنیا پر حکمراں تھی اور جس کا دبدبہ ایسا تھا کہ مقابلہ کے بغیر ہی دشمن ہتھیار ڈال دیا کرتے تھے، آج وہی قوم محکوم بن چکی ہے۔ جب سے ہم نے عزیمت کے بجائے ہزیمت کو اختیار کیا ، رسوائی اور ناکامی مقدر بن چکی ہے۔ بقول علامہ اقبال ’’اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر‘‘ ہم نے کامیابی کی ضمانت دینے والے دستور الٰہی سے منہ موڑا تو انسانوں کا بنایا ہوا دستور ہم پر مسلط کردیا گیا ۔ حقوق کا حاصل ہونا موجودہ دور میں آسان نہیں ہے بلکہ حقوق کو مانگنے کے بجائے چھین کر حاصل کرنے کی طاقت ضروری ہے۔ ایمان کا جذبہ کم کیا ہوا ہم نے خدا کے خوف کو دل سے نکال دیا لیکن خوف بندہ کا شکار ہوئے اور یہی خوف غلامی اور پسماندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر دور میں مسلمانوں کیلئے بے لوث قائدین نے مزاحمت کی تعلیم دی ہے ۔ مسلمانوں کی موجودہ ابتر حالت کی وجوہات کا پتہ چلانے کیلئے یوں تو کئی سروے اور ریسرچ کئے گئے لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ دین سے دوری نے حاکم کو محکوم بنادیا۔ کوئی بھی طاقت نہیں چاہتی کہ سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگایا جائے۔ وہ اس لئے کہ اگر مسلمان جاگ گیا تو ملک کے سیاہ سفید کے فیصلے اس کے کنٹرول میں ہوں گے۔ اس لئے کچھ نہ کچھ مراعات کا نشہ پلاکر سلادیا جاتا ہے۔ اس مرحلہ پر ہمیں کسی اہل نظر کا وہ جملہ یاد آرہا ہے کہ اسلام سب سے بہترین مذہب ہے لیکن مسلمان بدترین قوم ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی روایات اور اسلاف کے کارناموں کے امین اور جانشین بننے کے بجائے ہم نے حکومتوں کے ٹکڑوں پر قناعت کرلی ہے۔ مسلمان اور خوف کبھی یکجا نہیں ہوسکتے لیکن اس کیلئے جذبہ ایثار و قربانی کے ساتھ قوت مزاحمت ضروری ہے۔ ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے باوجود مسلمان بے قدر و منزلت محض اس لئے ہے کہ ہم نے مزاحمت کا راستہ ترک کردیا۔ برخلاف اس کے سکھوں نے کئی بار حکومتوں کو جھکنے پر مجبور کیا ہے۔ آپریشن بلو اسٹار کیلئے آج تک بھی حکومتیں سکھ قوم سے معافی مانگ رہی ہیں۔ تعداد سے کامیابی یا شکست کا تعلق نہیں ہوتا بلکہ سرفروشی کا جذبہ ہو تو بڑی سے بڑی طاقت کو جھکایا جاسکتا ہے۔ سکھوں کی آبادی ہندوستان میں 1.72 فیصد ہے لیکن ملک کے اہم ترین عہدوں پر سکھ فائز رہے اور آج بھی ہیں۔ سکھوں نے زرعی قوانین پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جبکہ سی اے اے اور این آر سی مسئلہ پر مسلمانوں کے طویل احتجاج کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ 1.72 فیصد سکھوں کی فوج میں نمائندگی 8 فیصد ہے جبکہ 15.5 فیصد مسلمانوں کی فوج میں نمائندگی محض 3 فیصد بھی نہیں۔ وہ اس لئے کہ سکھ اپنے حقوق کو منوانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں بی جے پی کی سرپرستی میں ہندوتوا طاقتیں بے لگام ہوچکی ہیں، مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے مذہبی تشخص مٹانے کے درپہ ہیں، عدم تحفظ کا شکار مسلمانوں کے لئے کرناٹک کی مسکان خاں نے روشنی دکھائی ہے۔ فرقہ پرست بھیڑیوں کے گھیراؤ کے باوجود تنہا مسکان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے کچھ اس طرح للکارا کہ حملہ اور خوفزدہ کرنے کی غرض سے آئے ہوئے اشرار کے دل میں خوف پیدا ہوگیا۔ ایک باحجاب مسکان خاں نے تنہا مقابلہ کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ دین اور شریعت سے حقیقی معنوں میں وابستگی نصرت الٰہی کے حصول کا سبب بنتی ہے۔ اٹوٹ جذبہ ایمانی تھا کہ مسکان خاں نے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا اور آج دنیا بھر میں اس کی بہادری کے چرچے ہیں۔ قوم میں بے حسی عروج پر پہنچ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے ایک مجاہد لڑکی کے ذریعہ قوم کے احساس زیاں اور جذبہ حریت کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جو ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم ان کے لئے راستے ہموار کردیتے ہیں۔ گزشتہ 70 برسوں میں فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا ۔ گزشتہ 8 برسوں میں بی جے پی اقتدار کے دوران مختلف عنوانات کے ذریعہ مسلمان نشانہ بنتے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کبھی لو جہاد تو کبھی گاؤکشی کے نام پر ماب لنچنگ کی جاتی رہی۔ تشدد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اب تو شریعت میں بھی مداخلت ہوچکی ہے ۔ پانی کی قیمت ہے لیکن مسلمانوں کے خون کی قیمت نہیں۔ فرقہ پرست جنونیوں کے حوصلے اس لئے بھی بلند ہیں کہ مسلمانوں نے ظلم سہنے کی عادت ڈال لی ہے ۔ وہ اس بات کو بھول گئے کہ ظلم سہنا بھی ظالم کی مدد کرنے کے برابر ہے۔ مسکان خاں نے یہ سبق دیا ہے کہ ظلم سہنے کے بجائے ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور مزاحمت کے ذریعہ باطل طاقتوں کے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا ہے ۔ ملک کے دستور نے ہر شہری کو اپنے دفاع کا حق دیا ہے اور ہر واقعہ میں مسلمان ڈٹ کر سامنا کرنا اور جواب دینا سیکھ لیں تو ظلم کا از خود خاتمہ ہوگا۔ دستور اور قانون کے دائرہ میں ہر شخص کو اپنی حفاظت کے لئے مزاحمت کا اختیار ہے ۔ کاش ہندوستان کے مسلمان مسکان خاں کی بہادری سے سبق لیتے ہوئے مزاحمت کے ذریعہ اپنا دفاع کریں گے۔ مزاحمت کیلئے کسی ہتھیار کی نہیں بلکہ صرف جذبہ ایمانی کی ضرورت ہے۔
جب کبھی انتخابات قریب آتے ہیں، مذہبی منافرت کے لئے کوئی نہ کوئی مسئلہ تنازعہ کی شکل میں پیش کردیا جاتا ہے ۔ انتخابات اترپردیش میں ہیں لیکن کرناٹک سے بی جے پی کی مہم چلائی جارہی ہے جس کے لئے حجاب کو مسئلہ بنایا گیا ۔ حجاب ملک میں کوئی نئی چیز نہیں کہ جس پر ہندوتوا طاقتوں کو اعتراض ہو لیکن وہ مسلمانوںکی مذہبی شناخت کو مٹانے کے درپہ ہیں، لہذا اسلام اور مسلمانوں کی کوئی نشانی اور علامت کو برداشت کرنے تیار نہیں۔ کرناٹک میں گاؤ کشی اور تبدیلی مذہب کے بعد بی جے پی حکومت نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کردی ۔ قابل مبارکباد ہیں کرناٹک کی مسلم لڑکیاں جنہوں نے دستوری حق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں سے انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسلم لڑکیوں کے مطالبہ کی تائید کی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاست میں حجاب پر تنازعہ جاری ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ خاموش ہیں۔ شائد ان کی خاموشی منصوبہ کے مطابق ہے تاکہ کچھ تنازعہ کا اثر اترپردیش کی رائے دہی پر پڑسکے۔ مسکان خاں کی حوصلہ افزائی کیلئے جمیعت العلماء نے پانچ لاکھ روپئے کے انعام کا اعلان کرتے ہوئے دیگر مسلم لڑکیوں میں فرقہ پرست طاقتوں سے نمٹنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔ اس تنازعہ کو گودی میڈیا کی جانب سے بھرپور ہوا دیتے ہوئے فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تاکہ بی جے پی کو فائدہ ہو۔ گودی میڈیا کے بکاؤ اینکرس یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ اگر حجاب کی اجازت دی گئی تو کل جمعہ کی نماز ، نماز کیلئے جگہ کی فراہمی اور رمضان میں تعطیلات کا مطالبہ کیا جائے گا ۔اپنے جلسوں میں نعرہ تکبیر بلند کرنا کوئی کمال نہیں ہے ۔ حقیقی جذبہ کا مظاہرہ تو اس وقت ہوتا ہے جب اشرار کے جھرمٹ میں آواز حق بلند کی جائے۔ بی جے پی حکومت نے طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی لیکن مسلمان خاموش رہے۔ اب یکساں سیول کوڈ کی تلوار سروں پر لٹک رہی ہے ۔ اگر بے حسی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب پارلیمنٹ میں ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیتے ہوئے قانون سازی کی جائے گی۔ ملک کے مسلمانوں کو روایتی نہیں بلکہ انقلابی قیادت کی ضرورت ہے۔ ملک کا دستور ہمیں قانون اور جمہوریت کے دائرہ میں رہ کر اپنے حقوق کے تحفظ کی اجازت دیتا ہے۔موجودہ صورتحال پر شہریار جلالپوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ظلم و ستم سے اور بھی بیباک ہوگئے
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ہم خاک ہوگئے