ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں !

   

ظلم عدل کی ضد ہے ‘کسی شئے کو اس کی اصل جگہ سے ہٹاکر غیر محل میں رکھنے کو ظلم کہتے ہیں‘ظلم کرنے والا ظالم اور جس پر ظلم ڈھایا جائے وہ مظلوم کہلاتاہے‘سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘انسانوں کے درمیان یہ رشتہ حضرت سیدنا آدم و سیدتنا حوّاعلیہما السلام کی نسبت سے خلاّق عالم جل مجدہ نے قائم فرمایا ہے ‘یہ انسانی رشتہ مقدس رشتہ ہے جو تقاضہ کرتا ہے کہ ان کے درمیان پیار و محبت ہو‘ رواداری و الفت ہو ‘عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں‘ظلم و جورکا دور دور تک گزر نہ ہو‘ ظلم کئی طرح کا ہوتا ہے‘ایک اپنی ذات پر ظلم ہے یعنی کوئی انسان اپنے خالق و مالک کی معرفت سے محروم رہ کر اس کی مرضی کے بجائے اپنے نفس کی چاہت کے مطابق زندگی گزارے یہ اس کا شخصی ظلم ہے جس کا ضرراس کی ذات تک محدود رہتا ہے‘ظلم کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان کسی انسان یاگروہ پر ظلم ڈھائے ان کی جان و مال ‘عزت و آبرو کے درپے ہوجائے‘ظلم کی ایک اور قسم ہے وہ یہ کہ کئی طاقتور افراد ظلم کا لبادہ اوڑھے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں دوسرے کمزور انسانوں کو ظلم کا نشانہ بنائیں‘ ظلم کی یہ بھی ایک قسم ہے کہ خالق کائنات اگر کسی گروہ کو حکومت و سلطنت عطا کرے وہ اپنی رعایا پرظلم ڈھاتا رہے ‘ حکومتوں کا کام تو عدل و انصاف قائم کرنا اور ہر طرح کے ظلم و ستم کو مٹانا ہے ‘اللہ سبحانہ کے احکام کی سرتابی کرتے ہوئے ایک انسان کا اپنے آپ پر ظلم کرنا اللہ سبحانہ کے ہاں معاف ہوسکتا ہے بشرطیکہ ندامت کے ساتھ اپنے ظلم کے اقرار و اعتراف اور آئندہ اس سے سخت اجتناب کے جذبات و احساسات تازہ رکھتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں سچے دل سے توبہ و استغفار کرلے‘توبہ و استغفار گویا ایک ایسا مرہم ہے جو شخصی ظلم کی وجہ سرزد ہونے والے گناہوں کے زخموں کو چنگا کرتا ہے ‘یا گویا ایسا آب صافی ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے کے گناہوں کو دھودیتا ہے ‘حدیث پاک میں وارد ہے گناہوں سے توبہ کرنے والا توبہ کی وجہ ایسا(پاک و صاف) ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ سے اپنے آپ کو آلودہ ہی نہیں کیا (السنن الکبری للبیھقی ۔۲۰۵۶۱)انسان کی سرشت میں خطا ءکا عنصر رکھاگیا ہے ‘یہ کہاوت مشہور ہے کہ انسان خطا ءو نسیان کا پتلا ہے ارشاد رسول صلی ا للہ علیہ وسلم ہے ’’تم سب خطاءکار ہو لیکن اچھےخطاءکار وہ ہیں جو توبہ کرلیں‘‘ (المستدرک علی الصحیحین ۔ ۷۶۹۰)
ظلم کی وہ تمام اقسام جن سے دوسرے کا ضرر و نقصان ہواس کی تلافی بھی ممکن ہے جبکہ ظالم ‘مظلوم سے معافی و تلافی کا سامان کرکے اپنے پروردگار سے بھی معافی کا خواستگار ہو‘کسی فرد یا گروہ کا کسی شخص یا گروہ پر ظلم ہو اور وہ اپنے ظلم کی تلافی پر بھی آمادہ نہ ہوںتو حکومتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس طرح کے تمام مظالم کا سدباب کریں‘حکومتیں تو عدل و انصاف کے قیام اور امن و آمان کو یقینی بنانےکیلئے ہی قائم کی جاتی ہیں نہ کہ رعایا پر ظلم ڈھانے کیلئے ‘ظلم خالق کائنات کو سب سے زیادہ ناپسند ہے‘کسی صاحب نظر کا قول ہے’’ حکومتیں کفر و شرک کے ساتھ تو چل سکتی ہیں لیکن ظلم کے ساتھ نہیں ‘‘یہی وجہ ہے کہ کرئہ ارض پر کئی ظالم حکمران آئے جن کاوطیرہ کمزور رعایا پر ظلم ڈھانا تھا‘اللہ سبحانہ نے ان کو ڈھیل دی تاکہ وہ اپنی اصلاح کرلیں‘لیکن جب وہ اپنی طاقت و قوت اور سلطنت کے گھمنڈ میں اپنی ظالمانہ روش سے باز نہ آئے تو حق سبحانہ نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا‘فرعون کو دریا میں غرق کردیا ‘قارون کو اس کے خزانوں کے ساتھ زمین میں دھنسادیا ‘نمرود جو سرکش جابروظالم حکمران تھا بڑی سے بڑی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتا تھالیکن اللہ سبحانہ نے ایک حقیر مچھر سے اس کو فنا کی گھاٹ اتار دیا۔ہٹلراور نیپولین بھی ظلم کی علامت کیلئے مشہور ہیں ان کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘اس میں فرد و سماج اور حکومتوں کے منصب داروں کیلئے عبرت و نصیحت کا پیغام ہے ۔

ہندوستان کوئی شخصی یا خاندانی مملکت نہیں ہے یہ توایک جمہوری ملک ہےجو جمہوریت کی اعلیٰ قدروں کا پاسدار ہے‘اس کا دستور ایک مثالی دستور ہے اب تک کے حکمرانوں نے جس پر چل کر ہمارے سیکولر ملک کو ایک مثالی جمہوریت پسند ملک بنائے رکھا ہے‘ایسا نہیں ہے کہ آزادی کے بعد ملک میں کوئی ظلم ہی نہ ہوا ہولیکن ذمہ دار جمہوریت پسند حکمرانوں نے اس کے سدباب کی بھرپور کوشش کی ہے جس کی وجہ ظلم کی تلافی ہوتی رہی ہے‘لیکن موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے ظلم کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب ملک کی جمہوری قدروں کو غیر انسانی و غیر اخلاقی بہائو میں بہا لے جارہا ہے‘ پہلے تو غنڈہ عناصر ظلم و بربریت کا کھلم کھلا ناچ ناچتے رہے غیر انسانی وغیرسماجی ایشوز Issuesکا بہانہ بناکر ملک کے ایک خاص طبقہ کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے رہے ‘ دلت تو پہلے ہی سے ظلم کی چکی میں پستے رہے ہیںوہ بھی ان کے غیر انسانی مظالم سے اب بھی محفوظ نہیں ہیں‘شرپسندوں کی ان غیر سماجی سرگرمیوں پر کوئی روک نہیں لگی ‘جس کی وجہ ملک کے سیکولر دانشوروں کا احساس ہے کہ ‘مجرموں کے حق میں حکومت کی چشم پوشی ہی کی وجہ ان ملک دشمن غیر سماجی عناصر کو بڑھاوا ملا ہے ‘ جبھی تو غیر سماجی عناصر ملک میں درندگی مچاتے رہے‘ریپ اور قتل و خون کے جرائم دھڑلےّ سے انجام دیتے رہے ان جرائم پسند عناصر پرجیسی روک لگنی چاہئے تھی نہیں لگی اور اب تو حکومت بھی کردار و عمل سے کھل کر سامنے آگئی ہے ‘کیسا گلہ اور کس سے شکوہ ‘بہر حا ل ہر سال ملک کی آزادی کا سب مل کر جشن مناتے ہیں‘ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم ملک سے ظلم و جور کو مٹاکر غیر سماجی عناصر پر شکنجہ کس کر‘کالے دھن کو ملک میں واپس لاکر ‘غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے رعایا کیلئے روزگار کی فراہمی کا سامان کرکے ‘مزید درسگاہوں اور جامعات کے قیام سے تعلیم کو ہر شہری کی دسترس تک پہنچاتے ہوئے ‘خاص طو رپر کمزوروں اور غریبوں کیلئے علاج و معالجہ کی سہولتیں فراہم کرتے ہوئے دستوری نقطہء نظر سے تمام مذاہب کے احترام اور ان کے پیروکاروں کیلئے امن و آمان کی فضاء بناتے ہوئے جشن جمہوریہ مناتے لیکن افسوس موجودہ حکومت ان سارے ایشوز میں سخت ناکا م ہے ‘ان اہم مسائل سے رعایا کی توجہہ ہٹانے کیلئے ایسے ایشوزکو اٹھانے کی منصوبہ بندی کی گئی جو سرے سے نہ رعایا کیلئے کسی طرح مفید ہیں نہ ہی ملک کی ترقی اس سے ممکن ہے ‘ ظاہر ہے نوٹ بندی ‘ طلاق ثلاثہ بل یہ ایسےغیر ضروری ایشوزتھے ‘جس پر حکومت نے اپنی توانائیاں ضائع کی ‘دفعہ۳۷۰ کی تنسیخ پھر بابری مسجد کا غیر منصفانہ فیصلہ جس پر پورے ملک میں گرماگرم بحث و مباحثے جاری رہے ‘اس طرح رعایا کو غیر ضروری مسائل میں الجھادیا گیااور اب این آر سی پھر سی اے اے اور این پی آر جیسے قوانین کو لاگو کرنے کے اعلان سے پورا ملک سراپا احتجاج ہے ‘ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا کوئی جرم نہیں ہے ‘جمہوری حقوق میں اس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ‘محسن انسانیت ‘ رسول رحمت سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے منکر یعنی ہر وہ ناپسندیدہ امر جو دستور و قانون کی روسے ہی نہیں بلکہ انسانی اعلیٰ قدروں کے منافی ہوطاقت و قوت ہو تو بزوراس کو روکنے ورنہ زبان سے اس کے خلاف آواز اٹھانے کا پیغام دیا ہے انتہائی ناگفتہ بہ حالات ہوںزبان سے مذمت بھی مزید ظلم و جور کا باعث بن سکتی ہو تو دل سے برا جاننے کی ہدایت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے (صحیح مسلم۔ ۴۹ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ظلم کے خلاف ضرور آواز اٹھائی جانی چاہئے ‘ ہمارے ملک کا دستور بھی جب اس کی اجازت دیتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ملک میں حکومت کے مظالم کے خلاف پرامن احتجاجی کارروائیوں پر قدغن لگائی جارہی ہے ‘ملک کی اعلیٰ جامعات کے طلباء و طالبات جو اس کے خلاف پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں ‘ان کو پسپا کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ‘اے بی وی پی (ABVP) کے نقاب پوش اسلحہ برداروں کا JNUمیں خونخوار حملہ اسی ظالمانہ کارستانی کا حصہ ہے ورنہ ان غیرسماجی عناصر کی کیسے جرات ہوسکتی ہے کہ وہ حق و انصاف کی آواز کو دبانے کیلئے درندگی مچائیں‘یو پی میں یوگی راج ہے ‘جو ظلم کی ڈگر پر چل رہا ہے شائد مرکزی حکومت کی ان کو خصوصی سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ یو پی میں پولیس کے قیامت خیز مظالم کا سلسلہ جاری ہے ‘یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ مرکزی حکومت ان سارے مظالم پر چپ سادھے ہوئے ہے‘پولیس خود پرتشدد وفسادی کارروائی انجام دے اوربے قصور رعایا کواپنی درندگی کا نشانہ بنائے تو یہ نہ صرف پولیس وردی کی بلکہ دستور و قانون کی سخت توہین ہے ‘پولیس کا نظم و انتظام ظلم ڈھانے کیلئے نہیں بلکہ مظلوموں کا ہاتھ تھامنے ‘ظالموں کی گرفت کرنے اور عدالتوں سے رجوع کرکے مجرموں کو قرار واقعی سزاءدلانے کیلئے ہوتا ہے ملک میں کہیں فسادی عناصر غنڈہ گردی کررہے ہوں تو پولیس کا وہاں پہنچ جانا مظلوموں کیلئے دلاسہ کا باعث بنتا ہے لیکن پولیس خود ہی ظلم کا لبادہ اوڑھ لے تو پھر انسانی سماج جنگل کے درندوں کو بھی شرمسار کردیتا ہے ‘ جنگل میں ہمہ اقسام کے جانور رہتے ہیں یہ اللہ سبحانہ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ ایک صنف کے جانوروں نے اپنی ہی صنف پر تشددو ظلم روا رکھا ہو اور جنگل میں قتل و خون کا بازار گرم کیا ہو ‘شیر ایک جانور ہے جب اسے بھوک لگتی ہے تو شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتا ہے لیکن کیسی ہی بھوک نے اس کو نڈھال کردیا ہو اور کوئی شکار دستیاب نہ ہو پھر بھی اس نے اپنی ہی صنف کے کسی اور شیر کا شکار کرکے اپنے پیٹ کی آگ بجھائی ہو ‘بھوک سے بلبلاتے ہوئے وہ مرجانا پسند کرے گا لیکن کبھی اپنی صنف پر کوئی حملہ نہیں کرے گا ‘آخر انسانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ درندگی مچانے میں جانوروںسے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں‘ شرپسند غنڈہ عناصر کی ٹولی ‘ارشاد باری ’’ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ‘‘کی تصویر بنی ہوئی ہے۔انسان راج اور جنگل راج میں زمین آسمان کا فرق ہے جب کبھی سماج میں غنڈہ عناصر کی غیر انسانی کارستانیاں عروج پر ہوتی ہیںاور حکومت ان پر کوئی لگام نہیں کستی تو کہا جاتا ہے کہ ’’جنگل راج چل رہا ہے ‘‘لیکن ہمارے جمہوری ملک کی حکومت اور پولیس جو ظلم ڈھارہی ہے اس کے لئے یہ محاورہ بھی شائد تنگ پڑرہا ہے ‘ظلم و بربریت کے ٹھیکیداروںکو یہ یاد رکھنا چاہئے۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
نائو کاغذ کی سدا چلتی نہیں