عالمی حالات ۔مسلمانوں کا کردار

   

موجودہ دور مادی وسائل حیات میں عروج ،زندگی کے ہر شعبہ میں تیزرفتارترقیات کاہے،اتصالات ومواصلات کی برق رفتاری نے ساری دنیا کو ایک دوسرے سے مربوط کردیاہے،دوردرازملکوں میں آباد اقرباء واحباب ایک دوسرے سے ملنے ،دیکھنے اور بات کرنے کو ،ترستے تھے،ملاقات کا ایک ہی ذریعہ خط وکتابت تھا جسکے ذریعہ چہیتوں تک اپنی بات پہنچاکر دل کا بوجھ ہلکا کرلیا جاتا تھا،لیکن موجودہ ترقی یافتہ مواصلاتی نظام کی وجہ سیکنڈوں میں رابطہ قائم کرلینا ،خیر خیریت دریافت کرلینا بلکہ گفتگوکرتے ہوئے اپنے چہیتوں کے دیدارسے آنکھیں ٹھنڈی کرلینا تک آسان ہوگیا ہے۔ ان ترقیات کا جہاں یہ ایک خوش کن پہلوہے وہیں ان کے مضر اورنقصاںرساں پہلوکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ ان کے نقصانات نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،اسکے مذموم نتائج وثمرات قابل تشویش ہیں،خصوصا نوجوان نسل موجودہ دورکے ترقی یافتہ آلات کے فوائدسے زیادہ نقصانات سے متاثر ہے۔ انسان مادی ترقیات کی وجہ بہت کچھ پاسکاہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسانیت ،شرافت اوراخلاقیات کے حوالے سے گراوٹ کی وجہ بہت کچھ کھوچکاہے،انسان محض گوشت ،پوست ، ظاہری وجود،قدوقامت ،رنگ وروپ کا نام نہیںہے بلکہ انسانیت کا اصل جوہر اسکی شرافت ونجابت اوراسکا اعلی اخلاقی کردارہے جوہر آنے والے دن کے ساتھ زوال پذیر ہے ۔غیر مسلم سماج کا چہرہ داغدار ہو قابل افسوس ہے لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس مسلم سماج کی بے راہ روی کا ہے ،دنیا کا نظام قیامت تک جاری و ساری رہیگا لیکن انسانی سماج کبھی ایک حال پر نہیں رہ سکتا،نت نئے امکانات اورنئی نئی تبدیلیاں ہر آن وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں اس لئے نئی نئی تحقیقات وایجادات سے مثبت استفادہ کرتے ہوئے زندگی کو خوشگواربنایا جاسکتاہے ،لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان وسائل حیات سے مثبت استفادہ کے بجائے منفی اثرات کی قبولیت نے معاشرہ کا چین وسکون درہم برہم کر دیا ہے،بغض وحسد،نفرت اوردوسروں کے حقوق غصب کرنے کے رجحانات نے ظلم وجوراور ناانصافیوں کو جنم دیا ہے ،ترقی یافتہ اورتہذیب وتمدن کے علمدارملکوں اورقوموں نے امن عالم، آزادی اورمساوات انسانی کے اصولوں کا آوازہ سارے عالم میں نشرکرنے کا اہتمام تو خوب کیا ہے لیکن ان زرین اصولوں کے پر چم تلے نت نئے حربوں کے ساتھ ان زرین اصولوں کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ کرئہ ارض پر حق سبحانہ نے وسائل حیات پھیلا رکھے ہیں جوسارے انسانوں کے استفادہ کیلئے ہیں،ان اجتماعی وسائل پر غاصبانہ قبضہ انکا وطیرہ ہے،انسانوں کا بڑا طبقہ اجتماعی انسانی وسائل حیات سے محروم کردیا گیاہے،اسکی وجہ بڑی تعدادمیں انسانیت کا ایک محروم طبقہ وجودمیں آگیاہے ، اپنے حقوق پانے کیلئے مثبت جدوجہدکرنے اوروسائل حیات کی منصفانہ تقسیم کی طلب میں قدم آگے بڑھانے والوں کی پیشانی پر ’’ دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپا ںکردیا گیاہے۔

اس ترقی یافتہ دورنے جہاں ایک مادی انقلاب برپا کیا ہے وہیں بہت سی برائیوں کو انسانی تہذیب کا حصہ بنا دیاہے، الفاظ کے معنی بھی تبدیل کردئے گئے ہیں ،لغوی معنی کے اس قلب معکوس کی وجہ اصل دہشت گرد ’’سچے منصف وعادل انسانیت کے بہی خواہ‘‘ اورجو مظلوم اپنے حقوق اورمراعات سے محروم حقوق کی منصفانہ تقسیم کے طلبگار ہیں وہ’’ دہشت گرد‘‘ قراردیدئے گئے ہیں، یا للعجب ۔دہشت گر دی کے خاتمہ کے خوشنما عنوان سے افغانستان ،عراق،شام،فلسطین،لیبیا،مصر،یمن وغیرہ میں قتل وخون کا بازارگرم کیا گیا ، معصوم بچوں اورضعیف مرد وخواتین کا ناحق خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا،آبادیوں کو تہس نہس کردیا گیا اوراب قطر کو نشانہ پر رکھا گیا ہے اللہ خیر کرے،پھر بھی انسان دشمن طاقتیں انسان دوست ہونے ہی کا تمغہ افتخاررکھتی ہیں۔ بقول شاعر:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہوکہ کرامات کرو ہو
افسوس اس بات کا ہے کہ بعض مسلم ممالک بھی خواہی نا خواہی دشمن کے آلہء کاربن گئے ہیں ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اخوت اسلامی کو عزیزرکھتے ’’یقینا اہل ایمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادواوراللہ سبحانہ سے ڈرتے رہا کروتاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘(الحجرات:۱۰) پر عمل کرتے ،ایمان کی نسبت سے باہمی اخوت ،پیارومحبت ، الفت وایثارکے جذبات تواس بات کے متقاضی ہیں کہ باہمی وقتی رنجشوں کو دورکرلیا جائے اوراصلاح حال کی ایسی مثبت کوشش کی جائے کہ جس سے غلط فہمیاں اوررنجشیںدورہوں اور پھر سے وہ شیروشکربن جائیں۔اسکے بجائے ظلم ونا انصافی کی بنیادپر مسلم دشمن طاقتوں نے یکے بعد دیگرے مسلم ملکوں کو کمزورکرنے کا جوحربہ اختیارکیا ہے اسکی آواز میں آواز ملائی جائے تو اس سے بڑھ کر اندوہناک بات اورکیا ہوسکتی ہے؟دشمن تو امن وآمان کے قیام کے خوشنما نعرہ کے ساتھ فتنہ کی آگ بھڑکا رہا ہے اورہم مسلمان (حکمران)جو اس دنیا میں ہرطرح کے ظلم (شرک وکفر اورانسانوں پر کئے جانے والے نا روا مظالم)کوختم کرنے اورعدل وانصاف قائم کرنے کے منصب پر فائز ہیں وہ اگربالواسطہ طورپر عدل وانصاف کا گلا گھونٹنے اورظالموں کے آلہ ء کار بن کر ظلم پھیلانے میں شریک کار ہوجائیں تو اس پر جتنے بھی خون کے آنسو روئے جائیں کم ہے۔ظلم میں بالواسطہ شریک مسلم عرب ملکوں اورحکمرانوں کویہ بات ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ’’آج وہ کل ہماری باری ہے‘‘کے مصداق انسان دشمن ظالم طاقتوں کے پنجہ ظلم سے شاید وہ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔عالم کے سارے مسلم حکمرانوں اورمسلمانوں کو یہ حدیث قدسی ہمیشہ نگاہوں میں رکھنا چاہئے : ’’ اے میرے بندو! میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام کرلیا ہے اورتمہارے درمیان بھی اسکو حرام کردیا ہے پس ہر گز آپس میں ظلم نہ کرو‘‘(مسلم؍۴۶۸۰)۔
خالق فطر ت کا عطا کردہ نظام حیات عدل پر مبنی ہے ،جہاں ظلم کیلئے کوئی جگہ نہیں انسانیت وشرافت اعلی اخلاق وکردار عدل کے تقاضے ہیں جس سے امن وآمان قائم ہوسکتا ہے اس لئے امن وسکون کی چاہت اورخوشحال زندگی گزارنے کا خواب اس وقت تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا،جب تک عدل کے تقاضوں کو پورا کرکے انسانی اقدارکو فروغ نہ دیا جائے اوردوسروں کی خوشحالی اوردوسروں کے امن وسکون میں ہماری اپنی خوشحالی اورہمارے اپنے امن وسکون کے پوشیدہ فطری راز کو نہ سمجھا جائے ،ظاہر ہے اسکے بغیر دنیا امن وآمان اورچین وسکون کا گہوار ہ نہیں بن سکتی۔قدرت کے اس فطری نظا م سے بغاوت کرکے اپنی شیطانی وطاغوتی فکرکے زیراثررہ کر کوئی اورراستہ اختیار کرے تو وہ ٹھوکرکھائے بغیر اورانجام بدکو گلے لگائے بغیر نہیں رہ سکتا، ان شاء اللہ یہ تو ضرور ہوکر رہے گالیکن اس غیرفطری فکراورطرز عمل کی وجہ ان انسان دشمن طاقتوں کے چین وسکون کے ساتھ دنیا میں بسنے والے سارے انسانوں کا چین وسکون بھی چھن گیا ہے ۔

اس پس منظر میں ملت اسلامیہ کو اسلام کے عملی اورآفاقی پیغام کو عملی جہت سے عام کرنے کی ضرورت ہے،اسلام وہ واحد مذہب ہے جو نہ کسی علاقہ کے ساتھ محدودہے نہ اس میں نسل پرستی اورقومیت کا کوئی تصورہے ،انسانی احترام اسلام کی ایک اعلی قدرہے خواہ وہ انسان کہیں رہتے بستے ہوں،خواہ وہ کسی نسل وقوم کے ہوں،یہی وہ پیغام ہے جو انسانیت کو پھرسے انسانیت کے رتبہ بلندتک پہنچاسکتاہے۔حق وباطل کی ہر دورمیں معرکہ آرائی رہی ہے ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باطل کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے،ظاہر ہے اللہ سبحانہ کی مددونصرت کے بغیر اس کا حصول ممکن نہیں ،اللہ سبحانہ کی نصرت دین وایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے ملتی ہے اورغیبی نصرت کی مددسے حق پر قائم ایک چھوٹی سی جماعت کو باطل پر قائم بڑی جماعت پر فتح حاصل ہوسکتی ہے۔جنگ بدرمیں مسلمانوںکی ایک قلیل جماعت کی کامیابی باطل پر قائم کثیر تعدادپر مشتمل جماعت کی شکست ایک روشن حقیقت ہے (آل عمران ؍۱۲۳ ؍۱۲۶) اللہ سبحانہ کی غیبی مددکسی خاص وقت یا کسی خاص قوم وقبیلہ کے ساتھ مختص نہیں ،یہ غیبی مددونصرت ہر دور،ہر زمانہ اورہر قوم وطبقہ کیلئے عام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ حق پر قائم جماعت دین وایمان پر استقامت کے ساتھ ایمانی ہمت وجرأت ،شجاعت وبہادری ، حق گوئی وبے باکی جیسی اعلی قدروںسے لیس ہوکرباطل سے مقابلہ کیلئے میدان میں اتر آئے۔مسالک ومشارب کے اختلاف سے اونچے اٹھ کر اسلام کے بنیادی اعتقادات پر متحد ہوجائے ،اسلام دشمنی اورقوم مسلم سے تعصب وعداوت کے عالمی ماحول میں اس اختلاف نے ملت اسلامیہ کو داخلی وخارجی دونوں محاذوں پر سخت نقصان پہونچا یا ہے،نیز مسلم ممالک کی ملکی وقومی اورسلطنتوں کے حدودکی غیر ضروری جنگ سے ملت اسلامیہ کی رہی سہی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ایمانیات واعتقادات میں تزلزل، مادی فکرکے غلبہ اوراسلامی اعلی فکرسے محرومی کی وجہ اسلام سے حقیقی وابستگی کی روح مجروح ہوگئی ہے،دشمن طاقتوں کی معاندانہ کوششوں ،دسیسہ کاریوں ،ریشہ دوانیوں پر مشتمل منصوبہ بندی کو ناکام کرنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے اسلام سے سچی وابستگی،اسکے سوا اورکوئی راہ نہیں جو دشمن طاقتوں کے مقابل میں ملت اسلامیہ کو غلبہ دے سکے۔ اللہم انصرالاسلام والمسلمین واخذل الکفرۃ والمشرکین والطغاۃ الظالمین۔آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی سیدالمرسلین وآلہ وصحبہ اجمعین والحمدللہ رب العالمین۔