عتیق جیسے مافیا ڈان کو سخت سزا ملنی ہی چاہیے، لیکن جس طرح قتل ہوا وہ شرمناک

   

ظفر آغا
عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کا جس انداز میں قتل ہوا اور اس کو جس طرح ایک ’ہندو وِکٹری‘ کی شکل میں پیش کیا گیا، وہ انتہائی شرمناک بات ہے۔
عتیق احمد اور اس کا بھائی اشرف بدنام زمانہ مافیا ڈان تھے۔ ان کے خلاف درجنوں قتل کے مقدمے زیر سماعت تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عتیق اور اس کے گینگ نے شہر الٰہ آباد میں نہ جانے کتنے معصوم شہریوں کی جائیداد اور زمین بندوق کی نوک پر ہڑپ کر رکھی تھی۔ لیکن بحیثیت ایک ایم ایل اے کے عتیق کو سیاسی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس وجہ سے کوئی پچھلے تقریباً تیس برسوں میں عتیق کا کچھ بگاڑ نہیں سکا۔ اس سلسلے مین ملائم سنگھ یادو حکومت پر اکثر اُنگلی اٹھی کیونکہ عتیق کئی بار سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی رہے۔ لیکن ملائم سنگھ حکومت نے کبھی عتیق کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اُٹھایا۔ لیکن سنہ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے برسراقتدار میں آتے ہی بذات خود وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اتر پردیش ریاست کو مافیا سے پاک و صاف کر دیں گے۔ اس سلسلے میں یوپی حکومت نے وہی انکاؤنٹر کی پالیسی اختیار کی جو ان سے پیش تر دوسری حکومتیں بھی استعمال کر چکی تھیں۔ چنانچہ یوگی حکومت کے دوران کبھی کانپور کے ڈان وکاس دوبے پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے، تو کبھی اسد کا پولیس انکاؤنٹر میں قتل ہوا۔
ظاہر ہے کہ اس پس منظر میں عتیق احمد جیسے ڈان کو یہ اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ وہ کسی بھی پولیس انکاؤنٹر کے شکار ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ جب امیش پال قتل کیس میں پولیس نے ان کے 19 سالہ بیٹے اسدکو گرفتار کیا اور اس کو پوچھ تاچھ کے لیے گجرات کے سابرمتی جیل سے الٰہ آباد کے نینی جیل میں منتقل کرنے کا حکم ہوا تو عتیق سمجھ گئے کہ اب ان کا وقت آ گیا ہے۔ عتیق نے اس سلسلے میں فوراً شور مچانا شروع کر دیا۔ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حد یہ ہے کہ عتیق نے سپریم کورٹ میں بھی عرضی داخل کی کہ ان کو خطرہ ہے کہ پولیس انکاؤنٹر میں مار دیے جائیں گے۔ لہٰذا سپریم کورٹ ان کے تحفظ کا معقول انتظام کرے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے عتیق کی درخواست یہ کہہ کر رد کر دی کہ ’اسٹیٹ مشنری ان کے تحفظ کا انتظام کرے گی۔‘
لیکن 15 اپریل کی رات کوئی 10:30 بجے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو پولیس کی زیر حراست تین نوجوانوں نے قتل کر دیا۔ یہ تھا ’اسٹیٹ مشنری‘ کا عتیق کا تحفظ۔ اس سے قبل دو یا تین روز قبل عتیق کا 19 سالہ بیٹا اُمیش پال قتل کے معاملے میں ایک انکاؤنٹر میں مارا جا چکا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں، عتیق اور اشرف کی پولیس کی نگرانی میں موت کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر ایک جشن بپا ہو گیا۔ لوگوں نے کھل کر ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ’تھینک یو یوگی جی‘ پوسٹ کرنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ عتیق کے اس طرح مارے جانے پر طرح طرح کے سوال اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ عتیق کے قتل میں یوپی حکومت کی مرضی شامل تھی۔ اس شک کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ مجرموں کا انکاؤنٹر یوپی حکومت کی پالیسی ہے۔ عتیق کا بیٹا اسد یوگی جی کے سنہ 2017 میں برسراقتدار آنے کے بعد سے 182 واں انکاؤنٹر تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یوپی حکومت جس ہندوتوا نظریہ پر گامزن ہے، اس میں اتر پردیش کے مسلمانوں کو سبق سکھانا اس کا خاص عنصر ہے۔ اس پالیسی کے تحت یوپی حکومت نے ’بلڈوزر انصاف‘ کی شروعات کی جو اب تقریباً تمام بی جے پی حکومتوں کی پالیسی بنتا جا رہا ہے۔ عتیق اور تقریباً اس کے تمام خاندان کا جس انداز میں خاتمہ ہوا، اس کا بھی مقصد یہ دکھائی پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جائے۔ غالباً اسی پالیسی کے تحت عتیق اور اشرف کا قتل لائیو ٹی وی پر بھی دیکھا گیا۔
الغرض پولیس حراست میں عتیق اور اشرف کے قتل نے کئی اہم سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ اولاً، کیا پولیس انکاؤنٹر کی پالیسی کسی جمہوری اور مہذب سرکار کی پالیسی ہو سکتی ہے۔ دوسرا اور انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ کیا یوپی کی اقلیت کو بلڈوزر اور عتیق جیسے قتل کے ذریعہ پیدا کردہ خوف کے تحت ہی جینا پڑے گا۔ اس وقت یوپی کا مسلمان خوف کی زندگی جی رہا ہے۔ یہ کسی بھی ریاست کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ عتیق جیسے مافیا ڈان کو ہر وہ سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تھی جس کی قانون اجازت دیتا ہے، لیکن عتیق کا جس انداز میں قتل ہوا اور اس کو جس طرح ایک ہندو وِکٹری کی شکل میں پیش کیا گیا، وہ انتہائی شرمناک بات ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہندوتوا سیاست کا اہم رول تھا۔ یہ سیاست اب خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اس سیاست سے ملک کی ہم آہنگی اور سماجی امن کو خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ سیاست بند ہونی چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ محض عتیق اور اشرف کے قاتلوں کو ہی سخت سے سخت سزا نہیں ملنی چاہیے، بلکہ اس پولیس عملے کو بھی سخت سزا ملنی چاہیے جس کی نااہلی سے عتیق اور اشرف کا قتل ہوا۔