عتیق کا نہیں ‘ قانون کا قتل

   

بالآخر وہی ہوا جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ اترپردیش میںایک خاندان کا عملا صفایا کردیا گیا ۔ مافیا ڈان و سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو میڈیا ‘ پولیس اور درجنوں افراد کی موجودگی میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ۔ دو دن قبل ہی اترپردیش پولیس نے عتیق احمد کے فرزند اسد احمد کو انکاؤنٹر کے نام پر گولی مار دی تھی ۔ اترپردیش کو جس طرح سے گن کلچر والی ریاست میں تبدیل کردیا گیا ہے وہ انتہائی مذموم ‘ افسوسناک اور خلاف قانون عمل ہے ۔ اترپردیش میں اب قانون کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ۔ پولیس ہو ‘ انتظامیہ ہو یا پھر وہاں کے مجرمین ہوں سبھی طاقت کے زبان بولنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ قانون اور عدالتوں کو نظرا نداز کیا جا رہا ہے ۔ ماورائے عدالت ہلاکتیں کی جا رہی ہیں۔ فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں اور جرائم کو ختم کرنے کے نام پر ٹارگٹ ہلاکتیں کی جا رہی ہیں۔ عتیق احمد اور ان کے بھائی کا قتل بھی ایک طرح سے سارے خاندان کا صفایا کردینے کے مترادف ہے ۔ دو دن قبل ہی عتیق احمد کے فرزند اسد احمد اور اس کے ایک ساتھی کو جھانسی میں انکاؤنٹر کا نام دیتے ہوئے ہلاک کردیا گیا تھا ۔ جب اس مبینہ انکاؤنٹر کی تحقیقات کے مطالبات ہو رہے تھے کہ عتیق احمد اور ان کے بھائی کو بھی موت کی نیند سلادیا گیا ۔ مختلف گوشوں سے جو تاثرات ظاہر کئے جا رہے ہیں ان سے یہ شکوک تقویت پاتے ہیں کہ یہ سارا کچھ حکومت اور پولیس کی ملی بھگ کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ۔ جس طرح سے عتیق احمد کو درجنوں پولیس والوں کی موجودگی میں اور جس طرح سے سارے ملک کی میڈیا کی موجودگی میں کیمروں کی فلمبندی کے دوران قتل کیا گیا وہ کوئی معمولی جرم نہیں ہوسکتا اور کوئی عادی مجرم بھی اس طرح کی دلیرانہ حرکت نہیں کرسکتا ۔ عتیق احمد کا قتل در اصل ریاست میں قانون کا قتل ہے ۔ قانون کے رکھوالوں نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے وہ ان پر اور ان کے فرائض پر سوالیہ نشان لگانے کیلئے کافی ہے ۔ پولیس کے رول کی اس سارے معاملے میں تحقیقات کی ضرورت ہے تاہم وہ بھی غیرجانبدارانہ ہونی چاہئے ۔
عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد پہلے ہی سے یہ شبہات ظاہر کر رہے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی بہانے سے موت کے گھاٹ اتاردیا جائیگا ۔ عتیق احمد نے توا س سلسلہ میں پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی تھی ۔ا س کے علاوہ عتیق کے بھائی نے دعوی کیا تھا کہ ایک اعلی پولیس عہدیدار نے ہی انہیں انتباہ دیا ہے کہ انہیں کسی نہ کسی بہانے جیل سے باہر لیجایا جائیگا اور ان کا کام تمام کردیا جائیگا ۔ بالکل اسی طرح سے عتیق اور ان کے بھائی کو جیل سے باہر لایا گیا ۔ فرضی میڈیا نمائندوں کے نام پر انہیں موت کی نیند سلادیا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام ڈھلنے کے بعد پیدل انہیں کس طرح سے جیل سے باہر لایا گیا ۔ اگر میڈیکل معائنے کروانے ہی تھے دن میں کروائے جاتے ۔ جیل سے انہیں کسی محفوظ گاڑی میں دواخانہ لیجایا جاتا ۔ یا ڈاکٹرس ہی کو جیل لا کر ان کے معائنے کروائے جاتے ۔ جس طرح سے مقامی افراد نے دعوی کیا ہے کہ حملہ آوروں کو پولیس کی گاڑی میں وہاں لایا گیا تھا ۔ لوگ ویڈیو میں یہ بیان دے رہے ہیں۔ جو حالات ہیں ان سب کو دیکھتے ہوئے یہ شبہات ضرور تقویت پاتے ہیں کہ یہ سارا کچھ منظم اور منصوبہ بند انداز کا ڈرامہ تھا جسے میڈیا کے کیمروں کی موجودگی میں فلمایا گیا اور افسوس اس بات کا ہے کہ بعض کارپو ریٹ چینلس اپنے اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر اس کا جشن بھی منا رہے تھے ۔ یہ قانون سے بدترین کھلواڑ ہے اور جس طرح سے ایک خاندان کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے اور اس سے یو پی کے حالات کا اندازہوتا ہے ۔
اترپردیش میں جس طرح لاقانونیت کا راج چل رہا ہے عتیق احمد اور اشرف احمد کا قتل اسی سلسلہ کی کڑی کہا جاسکتا ہے ۔ بلڈوزروں اور بندوق کے زور پر مخالفین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ماورائے عدالت فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ ماورائے عدالت سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اس سے قانون کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ سارے معاملات کی سپریم کورٹ کے جج یا سپریم کورٹ کی نگرانی والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعہ تحقیقات کروائی جانی چاہئے ۔ جو عہدیدار اور دوسرے اس قتل میں ملوث ہیں انہیں عبرت ناک سزائیں دی جانی چاہئیں ۔ قتل کرنے والوں اور سازش رچنے والوں کے چہروں کو عوام میں بے نقاب کیا جانا چاہئے ۔