عثمانیہ جنرل اسپتال کی تاریخی عمارت تحفظ ضروری

   

سمرن گاندھی
عثمانیہ جنرل اسپتال صرف حیدرآباد اور تلنگانہ کا ایک تاریخی ورثہ تاریخی آثار اور تاریخی عمارت نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے اہم تاریخی آثار میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس عمارت نے تقریباً ایک صدی سے حیدرآباد فرفندہ بنیاد کی شناخت اور اس کے کردار کی نمائندگی کی ہے، لیکن فی الوقت یہ اسپتال مخدوش حالت میں ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ اس سے حکومت سیاستدانوں اور خود عوام کا تغامل ہے۔ اگر عثمانیہ جنرل اسپتال کے MAIN TENANCE پر توجہ مرکوز کی جاتی تو آج اس کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ سابق بی آر ایس حکومت نے تو عثمانیہ جنرل اسپتال کو منہدم کرنے اور وہاں نئی عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا جہاں تک عثمانیہ جنرل اسپتال کی عمارت کا سوال ہے۔ یقینا وہ فن تعمیر کا ایک شاہکار عمارت ہے۔ اس کا ڈیزائن VINCENT JEROME ESCH نے تیار کیا تھا اور آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ عثمانیہ اسپتال کے ڈیزائن کی ایک کاپی کا حال ہی میں CHRISTIE کی جانب سے آکشن کیا گیا یا بولی بھی لگائی گئی۔ حیدراباد کی موسیٰ ندی کے کنارے اس عظیم الشان وسیع و عریض اور فن تعمیر کی شاہکار عمارت آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے کروائی جو سلطنت آصف جاہی کے آخری حکمراں بھی ثابت ہوئے۔ اس تاریخی اسپتال کی تعمیر 1919 میں کروائی گئی۔ اپنی حکومت کے دارالحکومت حیدرآباد کے تاج میںایک اور نادر و نایاب ہیرا جڑنے باالفاظ دیگر حیدرآباد میں ایک خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار عمارت کی تخلیق کے لئے نظام نواب میر عثمان علی خاں نے اس کے ڈیزائن کی تیاری کی۔ ذمہ داری برطانوی آرکٹکٹ VINCENT ESCH کو تفویض کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 26.5 ایکڑ اراضی پر مغلیہ اسلامی اور یوروپی طرز تعمیر کے حسین امتزاج کو ایک عمارت کی شکل میں کھڑا کیا۔ تقریباً ایک صدی کے دوران عثمانیہ جنرل اسپتال کے دامن میں کئی بڑے طبی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ بے شمار طبی کارنامے انجام دیئے گئے اور ملک کے ایک بہت بڑے مرکز صحت عامہ کی حیثیت سے عوام کی طبی ضروریات کی غیر معمولی اندازمیں تکمیل کی گئی لیکن افسوس صد افسوس کے عثمانیہ جنرل اسپتال (OGH) کو منہدم کئے جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ 27 جولائی 2023 میں حکومت تلنگانہ نے مفادعامہ کی مختلف درخواستوں کے جواب میں ہائی کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا۔ جہاں تک حکومت کے ارادوں اور اس کی نیت کا سوال ہے ان کا ارادہ عثمانیہ جنرل اسپتال کی 29 قدیم عمارتوں کو منہدم کرنا ہے اور اس مقام پر 1812 بستروں پر مشتمل ایک جدید اسپتال تعمیر کرنا ہے جس میں پوسٹ گریجویٹ اسٹوڈنٹس کے لئے ہاسٹل سہولت بھی ہوگی، ہمہ منزلہ کار پارکنگ بھی تعمیر کی جائے گی اور دوسری ضروریات جیسے مردہ خانہ، لیکوڈ آکسیجن سہولت، لانڈری اور الیکٹرک سب اسٹیشنس بھی اس عمارت کا حصہ ہوں گے۔ حکومت کے حلف نامہ میں واضح طور پر کہا گیا کہ چونکہ اسپتال کی قدیم عمارت زمین کے درمیان ہے ایسے میں اس وقت تک اسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر ناممکن ہے جب تک ہاسپٹل کی پرانی عمارت ہٹائی نہیں جاتی یا اسے منہدم نہیں کیا جاسکتا، حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ موجودہ عمارت کے لئے پرانی عمارت کو بقرار رکھنا مناسب نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ گنجائش سے زائد مریض بھی اس اسپتال کا ایک مسئلہ ہے۔ ڈاکٹروں کا یہ استدلال ہیکہ حکومت نے اسپتال کی تزئین نو کا جو منصوبہ بنایا تھا اس منصوبہ پر بھی عمل آوری نہ ہوگی جبکہ تاریخی آثار کے تحفظ کے لئے جدوجہد میں مصروف جہدکار چاہتے ہیں کہ شہر کی تہذیبی و ثقافتی شناخت کے طور پر مشہور عمارتوں بشمول عثمانیہ جنرل اسپتال کا تحفظ کیا جائے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ شہر کی ایک اور تاریخی آثار (ایرم منزل پیالیس) کو بھی مہندم کرکے اس مقام پر اسمبلی کی نئی عمارت تعمیر کرنے کے خواہاں تھے، لیکن ہائی کورٹ نے اس ضمن میں ایک فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کی بی آر ایس حکومت پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ایرم منزل جیسی تاریخی آثار کا ورلڈ ہیرٹیج کنونشن 1972 کے تحت تحفظ کیا جانا چاہئے اور تاریخی عمارتوں کا اس کنونشن کے تحت تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے جس طرح مستقبل کے لئے منصوبہ بندی بہت اہم ہے۔ اسی طرح ماضی کا بھی تحفظ اور اسے فروغ دینا بھی بہت اہم ہے۔ آپ کو بتادیں کہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی عمارت حیدرآباد میٹرو پالیٹن ڈیولپمنٹ اسوسی ایشن یا اتھاریٹی میں موجود ایک ایسی عمارت ہے جسے تاریخی آثار کا گریڈ 11B درجہ دیا گیا ہے اور جس کا HMDA کے ہیرٹیج ریگولیشن کے تحت تحفظ کیا گیا ہے۔ یہ صرف ایک عمارت ہی نہیں بلکہ سٹی یا شہر کی SKYLINE ہے ساری موسیٰ ندی اور اس کے کنارے شہر کی کہانی اس کے شاندار ماضی کی داستانیں بیان کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ آخر یہ شہر اور اس کے دامن میں موجود تاریخی عمارات کیسے وجود میں آئیں، یہ بات کنزرویشن آرکیٹکٹ جی ایس وی سوریہ نارائنا نے دی پرنٹ کو بتائی۔ واضح رہے کہ 2015 میں INTACH (انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیرٹیج کی رپورٹ اور 2019 میں تلنگانہ کے محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر کے ساتھ ساتھ آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر (نومبر 2019 کی اپنی رپورٹ میں) نے اپنی رپورٹس میں واضح طور پر کہا تھا کہ عثمانیہ جنرل اسپتال کی عمارت پوری طرح مستحکم حالت میں ہے ہاں اس کی مرمت تزئین نو اور عظمت رفتہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں رپورٹس میں پرزور اندازمیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عثمانیہ جنرل اسپتال کی عمارت کو منہدم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے میں شیترا جیسی تنظیمیں موجود عمارت میں توسیع کے لئے دستیاب امکانات کا جائزہ لے رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ موجودہ عمارت کو کوئی نقصان پہنچائے بناء ہاسپٹل کی عمارت میں توسیع کی جائے۔ ممتاز مورخ سجاد شاہد بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کی عمارات شناخت اور علامات ہیں اور شاندار ماضی کی یادگار ہیں۔ اگر ہم ان کی حفاظت نہیں کریں گے تو حیدرآباد 400 سالہ قدیم شہر نہیں رہے گا۔