عراقی اب بھی کولین پاؤل کے عراق جنگ میں کردار کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں

,

   

اس کے لئے عراقیوں نے امریکہ کی قیادت میں تباہ حملے کو ذمہ دار جسکی وجہہ سے برسوں سے اموات‘ افرتفری اور تشدد مشرقی وسطی کے اس ملک میں جاری ہے


بغداد۔ بہت ساری عراقیوں کول پاؤل کی ایک شبہہ بنی ہوئی ہے مذکورہ شخص بطور امریکہ اسٹیٹ سکریٹری اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل میں 2003کے وقت پیش ہوا تھا تاکہ ان کے خلاف جنگ کا مقدمہ تیار کیاجاسکے۔

پیر کے روز ان کی 84سال کی عمر میں موت کی اطلاعات نے عراق میں سابق جنرل اور سفیر کی برہمی میں شدت پیدا کردی ہے‘ بش انتظامیہ کے کئی عہدیداروں میں یہ ایک تھے جنھیں امریکہ کی زیر قیادت تباہ کن حملے میں کا ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے جس کی وجہہ سے عراق میں برسوں سے اموات‘ افرتفری اور تشدد چل رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں ان کی گواہی ان واقعات کا اہم حصہ تھے جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ عراقی اور مشرقی وسطی نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے۔

اس نے جھوٹ کہا‘ جھوٹ او رجھوٹ کہا مریم نے یہ بات کہی‘ ایک51سالہ عراقی مصنف اور شمالی عراق کی رہنے والی دو بچوں کی ماں نے اپنے آخری نام کی شرط رکھتے ہوئے یہ بات کہی کیونکہ امریکہ میں اس کے بچوں میں سے ایک زیر تعلیم ہے۔

اس نے جھوٹ کیا اور ہم ان میں سے ایک ہیں جو کبھی ختم نہیں ہونے والے جنگ میں ہمیں پھنسا دیاہے۔

مشترکہ چیف آف اسٹاف کے چیرمن کے طور پر پاؤل نے خلیج فارس جنگ کو اس وقت نظر انداز کیاتھا کرتے ہوئے عراقی فوج کو بیدخل کرنے کی مہم شروع کی تھی جب 1991میں عراقی لیڈر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیاتھا۔

مگر عراقی پاؤل کو اقوام متحدہ میں اس نمائندے کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے ان کے ملک پر حملے کو حق بجانب قراردیتے ہوئے برسوں تک تباہی مچائی اور اس کے لئے صدام حسین کو بڑے عالمی خطرے کے طور پر پیش کیاتھا جس کے پاس بڑی تباہی مچانے والے ہتھیار ہونے کا دعوی کیاتھا۔

سال 2011میں پاؤل نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ وہ امریکہ زیر قیادت حملہ گمراہ کن خفیہ جانکاری فراہم کرنے کی وجہہ سے ہوا تھا جس کے لئے وہ شرمندہ ہیں اور اس کو اپنے ریکارڈ پر ایک دھبہ قراردیاتھا۔

انہوں نے بتایاکہ تھا کہ خفیہ کمیٹی کی جانب سے دئے گئے ذرائع کے حوالے غلط ثابت ہوئے۔ مگر 2012میں اسوسیٹ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں پاؤل اس کا توازن برقرار رکھتے ہوئے نظر ائے کہ امریکہ نے کامیابی حاصل کی ہے کیونکہ عراق کے بڑے ڈیکٹیٹر کا خاتمہ ہوا ہے۔

صداق کو امریکی دستوں نے ڈسمبر2003میں شمالی عراق میں چھپے کے دوران پکڑا تھا اور بعد میں عراق کی حکومت نے انہیں پھانسی دیدی تھی۔ ایک جانب امریکی حملوں اور دوسری جانب فرقہ واری تشدد نے بے شمار عراقیوں کی جان لی ہے۔