عصرحاضرمیںمؤثر اصلاحی وتبلیغی صلاحیت کے حامل علماء کی تیاری

   

تعلیمی نظام کے مقاصد کیا ہونے چاہیئے پہلے اس کوطے کیا جاناچاہئے،عام طورپرحصول تعلیم کے مقصدکوتحصیل معاش کی حدتک محدودکردیاگیاہے ،عصری علوم کے ادارے وسیع تراہداف سے صرف نظرکرتے ہوئے صرف محدوددائرہ میںمحصور ہیں۔عصری مدارس وجامعات سے فارغ ہونے والے بھی محدودنظریات کے ساتھ اپنے اوراپنے خاندان کیلئے کچھ کرتے ہوں تویہ بات قابل لحاظ نہیں ،قوم وملت کیلئے کچھ کرسکیں’’خیر الناس انفعہم للناس‘‘ (معجم الاوسط للطبرانی:۶۱۸۲ ) کی عملی تفسیربنیں۔ یہ ان کا ہدف ہونا چاہیئے۔برصغیرہندوپاک میںدینی مدارس و جامعات اول تو مسلم آبادی کے تناسب سے بہت کم ہیں،کاش ان کا دائرہ کار اوروسیع ترہوتا،اوربدلتے حالات میں نصاب تعلیم کومؤثربنانے کیلئے ضروری تبدیلی وترمیم گوارہ کی جاتی تاکہ زمانی بصیرت کے حامل علماء تیارہوں۔ اسکے باوجوداسلام اورمسلمانوں کیلئے ان کی گراں قدرخدمات لائق ستائش ہیں،اسلامی تہذیب وثقافت اوراسکی اعلی قدروں کا وجود،ان اداروں کی مخلصانہ خدمات کا رہین منت ہے۔پھر امت کا صرف اکثرغریب وہ بھی تخمینی پانچ تا دس فیصدحصہ ہی ان اداروں سے منسلک ہے۔۹۰؍فیصدسے زائدمسلم سماج کے وہ نونہال ونوجوان جوعصری مدارس وجامعات سے وابستہ ہیں ان کوایک دیندار،متقی وپرہیزگارمسلمان بنانا اوران کی عمدہ دینی نہج پرکی گئی تربیت سے نکھاروسنوارکرملک کا ایک اچھا شہری اورملک وملت کیلئے مفیدانسان بنانا آخراس ذمہ داری کوکون پوراکرے؟یہ بات درست ہے کہ عصری علوم میں کمال درجہ کی مہارت حاصل کرلی جائے تو اعلی مناصب تک ممکن ہے رسائی ہوجائے ،تاہم اسکے ساتھ ضروری وبنیادی اسلامی علوم میں مہارت کا حاصل کرلینا ان مناصب کی ذمہ داریوں سے باحسن الوجوہ عہدہ برآہونے میں ممدومعاون ہوسکتاہے،زندگی کے تمام شعبوں میں اول تو مسلمان بہت کم ذمہ دارعہدوںپرفائزہیں اورجوفائز ہیں ان میں سے اکثر دین کے بنیادی تقاضوں سے بڑی حدتک ناواقف ہیں۔مذہبی اقدارومنصفانہ کردارکے فقدان کی وجہ ان کا اپنے عہدوں سے انصاف کرنا بھی بڑی حد تک ممکن نہیں،نتیجہ یہ ہے کہ سماج میں مسلم ڈاکٹرس توہیں لیکن ان میں سے اکثرانسانی ہمدردی ،دوسرے کے دردکوسمجھنے اوران کے زخموں پرمحبت کا مرہم رکھنے سے قاصرہیں،وکلاء وججس بھی ہیں لیکن کم وبیش اسلامی وشرعی قوانین سے کما حقہ واقف نہ ہونے کی وجہ نفع بخشی سے محروم ہیں،یہی کچھ صورتحال دیگرتمام اورشعبوں کی ہے،خود غرضی و بے مروتی کا ہرسوچلن ہے ،اس لئے مسلم سماج کودین سکھانے اوراخلاقی تربیت سے سنوارنے کی اشد ضرورت ہے۔اس کام کودینی مدارس وجامعات سے فارغ فضلاء کرام بخوبی انجام دے سکتے ہیں اوربڑی حدتک دے بھی رہے ہیں۔لیکن پھر بھی مسلم آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ علماء سے منسلک نہیں ہوسکا ہے ۔
اس وقت پہلا کام عصری مدارس وجامعات سے مربوط نوجوانوں اورغربت کی وجہ عصری مدارس کارخ نہ کرنے والے مسلم سماج کے تمام افراد تک اپروچ کا ہے۔اس کام کوپوری دردمندی اورحوصلہ مندی کے ساتھ پوراکرنے کیلئے امت کے ذمہ دار،غمگسارعلماء وزعماء ملت اورمالداروں کوآگے آنا چاہئے تاکہ مسلم سماج میں مخلصانہ بنیادوںپرمتحدہ منصوبہ بند اصلاحی کام ہو۔عصری علوم سے برائے نام نسبت رکھنے والے یا اس سے نابلدبھی کم سے کم دین کی بنیادی ضروری معلومات سے واقف ہوں اوردین کے تقاضوں کوپوراکرتے ہوئے ملک کے ایک اچھے شہری اوراسلام کے لائق تحسین وقابل تقلید عملی نمائندہ ثابت ہوں۔
دوسرا اہم کام قوم کی زبان میں گفتگوکرنے والے علماء کی تیاری کا ہے جولسان قوم میں تخاطب کرسکیں اوراسلام کا پیغام اوراسکے مزاج ومذاق کودینی بصیرت واسلامی حکمت کے ساتھ اوروں تک پہنچاسکیں،اس وقت دشمنان اسلام کااسلام اورپیغمبراسلام کے خلاف دشنام طرازیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے،جارحیت،معاندت وجہالت پرمبنی سوچی سمجھی متحدہ ایک سازش ہے جس کا مقصد اسلام اورمسلمانوں پرکاری ضرب لگانا ہے۔اسلام اورپیغمبراسلام کونشانہ بنانا ، دریدہ دہنی ،بے ادبی ،گستاخی اورانسانی سطح سے گرے ہوئے رکیک حملے ،استہزاء وتمسخرپرمبنی کارٹونس کی تیاری اوروقفہ وقفہ سے اس کی اشاعت اسی مقصد کی غماز ہے گویا دل میں پنپنے والے عداوت ودشمنی کے پھپولے پھوڑے جارہے ہیں ۔اس کا ایک ظاہری نقصان تو یہ ہے کہ وہ طبقہ جواسلام کی نعمت سے ضرورمحروم ہے لیکن سنجیدہ اورانسانیت نوازہے اس کے متاثرہونے کا شدید خطرہ لاحق ہے،جہاں یہ بات قابل افسوس ہے وہیں افسردگی اورشرمندگی اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ میں ایسے ادارے عنقاء ہیں جوایسے علماء تیارکرسکیں جولسان قوم سے واقفیت کی وجہ دشمنان اسلام کی سازشوں کوسمجھ سکیں اوران کی دشمنانہ یاوہ گوئی کا ان کی زبان میں حکمت ومصلحت کے ساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل ومبرہن جواب دے سکیں۔اللہ سبحانہ نے زبان وبیان کے اختلاف کواپنی نشانی قراردیا ہے (الروم:۲۲)
دنیا بھرمیں انگنت زبانیں بولی جاتی ہیں پھرمختلف زبانوں میں لب ولہجہ کا اختلاف الگ ہے ، اسلوب بیان بھی مختلف ہے ظاہرہے یہ قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے اس لئے کرئہ ارض کے چپے چپے میں ایسے علماء کی شدیدضرورت ہے جومقامی زبانوں اوراسکے اسالیب اس کی ادبی نزاکتوں اوران کے محاوروں سے پوری طرح واقف ہوں ۔یہ الہی حکمت ہے تبھی تواللہ سبحانہ نے ہرہرنبی کوان کی قومی زبان میں ہی مبعوث فرمایاتاکہ ان کے سامنے(احکام اسلام ) وضاحت کے ساتھ بیان کریں (ابراہیم:۴)الہی ہدایات کی تعلیم ،احکام اسلام کی تلقین وتفہیم اوراسلام کے عمومی پیغام کی تبیین یعنی اس کی خوبیوں کو کھول کھول کر بیا ن کرنے کا فریضہ اسی زبان میں ہوجس کوقوم سمجھتی ہے ۔ آپ ﷺ کواللہ سبحانہ نے رسالت عامہ عطافرمائی ،کرئہ ارض کی مختلف بولیاں بولنے والے ،مختلف رنگ ونسل کے سارے انسانوں کے آپ ہادی ورہنماء ہیں ۔ قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا(الاعراف:۱۵۸)تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا(الفرقان:۱)(سبا:۲۸)چونکہ آپ ﷺقیامت تک ساری انسانیت کے ہادی ورہبرہیں اس لئے یہ امت ہرہرزبان سیکھنے اوراس زبان میں پیغام حق پہنچانے کی امین ہے۔ انگریزی زبان چونکہ اس وقت سارے عالم پرچھائی ہوئی ہے اورہرعلاقہ میں اسکے سمجھنے والے موجودہیں اوراکثرفتنے اسی زبان کے بولنے والوں کی طرف سے اٹھائے جارہے ہیںاس لئے نسل نومیں تیارہونے والے علماء کیلئے اس زبان سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کو عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی(ترمذی:۲۷۱۵)خارجہ بن زیدرضی اللہ عنہ کویہودیوں کی تحریرسیکھنے کی ہدایت دی ،چنانچہ انہوں نے نصف ماہ کے اندراس میں مہارت حاصل کرلی۔جب بھی کوئی مکتوب آپ ﷺکے ہاں آتا تواس کوپڑھنے اوراسکا جواب لکھنے پروہی ماموررہے(ابودائود:۲؍۵۱۳،کتاب العلم ، باب فی فضل العلم)سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے مختلف ممالک کے سربراہان مملکت ومشاہیرکے نام دعوتی وتبلیغی خطوط لکھے ،مملکت اسلامی کے ذمہ داروں کے نام انتظامی امورسے متعلق خطوط بھی لکھوائے جن کی تفصیل کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔ظاہرہے ان مکاتیب مبارکہ کا مقصوداولین اسلام کا پیغام اوروں تک پہنچانا تھا ،سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے عناد ودشمنی کے نفرت انگیز ماحول میں بے خوف وخطرکسی مصلحت ودبائو کے بغیرمنصب رسالت کا حق ادافرمایا، مکۃ المکرمہ کی گلیاں ،طائف کی وادیاں اس کی گواہ ہیں، ماحول ۔اسلام اورمسلم مخالف نہ ہوبلکہ نہایت سازگارہوتب بھی یا غیرسازگارہو تب بھی موقع ومحل کی مناسبت سے حکمت وموعظت اختیار کرکے گمراہ انسانیت تک اسلام کا آفاقی پیغام پہنچانے کا فریضہ اسلام نے ملت اسلامیہ پر عائدکیاہے۔اس تناظرمیں ایسے علماء کی تیاری جومسلم معاشرہ کی ضرورت کوپوراکریں ، مساجدومدارس میں اپنی مساعی سے امت کوبھرپورفائدہ پہنچائیں یہ بھی یقینا اہم ترین ضرورت ہے لیکن اسی پراکتفاء خیرامت کے منصب سے عہدہ برآہونے کیلئے کافی نہیںہے بلکہ ایسے علماء کی تیاری بھی ضروری ہے جووسیع ترتناظرمیں سارے عالم کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل کرسکیں۔ اسلام کا مقصداولین وحی الہی اورآسمانی تعلیمات سے ساری انسانیت کوروشناس کرانا،نسل انسانی کوکفروشرک کی تاریکیوں سے نکال کراسلام کے نورمیں پہنچانا،مذہب بیزار غیراسلامی تہذیب وثقافت کا اباحت پسندانہ چلن جواسلامی اقداروکلچرکی بنیادیں کھوکھلی کررہا کی بیخ کنی کرنا ،اورالہ واحد کی حاکمیت کونہ صرف قلب وقالب پر قائم کرنا ہے بلکہ اسلام کو کرئہ ارض کے ہرگوشے کا مقدربنانا اورعالمی سطح پراسلامی کردارکی اثرخیزی کوتسلیم کروانا بھی ہے۔