عطائِ نعمت ِعظمیٰ پر خوشی کا اظہار کیا جائے

   

ابوزہیر مولانا سید زبیر ہاشمی ، استاد جامعہ نظامیہ

تمام مسلمانان عالم کو یہ جان لینا چاہئے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد عربی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روحانی کمالات، علوم مرتبت، باطنی فضائل اور خصائل سے استفادہ کرتے ہوئے دنیوی زندگی کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل ہوگی، ساتھ ہی ساتھ بروز آخرت کامیابی کا مژدہ بھی سنایا جائیگا۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ مبارک مہینہ کوئی اور نہیں بلکہ ربیع الاول ہے جسکو ربیع النور بھی کہاجاتا ہے جو کہ نبی آخرالزماں حضرت محمد عربی ﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے، جس پر ساری دنیا کے مسلمان اظہارِ خوشی کو اختیار کرتے ہیں۔ماہ ربیع الاول کی یاد میں ہمارے لئے جشن و مسرت کا پیام اس لئے ہے کہ اِسی مہینے میں اﷲ تعالیٰ کا وہ فرمان رحمت دنیا میں آیا، جس کے ظہور نے دنیا کی شقاوت و حرماں کا موسم بدل دیا۔ ظلم و طغیان اور فساد و عصیاں کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ جڑ گیا۔ انسانی اخوت و مساوات کی یگانگت نے دشمنیوں اور کینوں کو ختم کردیا اور کلمۂ کفر و ضلالت کی جگہ کلمۂ حق و عدالت کی بادشاہت کا اعلان عام ہوگیا۔
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری جانب ایک نور ہدایت اور کتاب مبین آئی۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے اپنی رضا کے طلبگاروں کو سلامتی اور زندگی کی راہوں پر چلاتا اور ان کے آگے صراط مستقیم کو کھولتا ہے‘‘۔ (سورہ مائدہ)
لیکن دنیا شقاوت و حرماں کے درد سے پھر دکھیا ہو گئی۔ انسانی شر و فساد اور ظلم و طغیان کی تاریکی خدا کی روشنی پر غالب ہونے کے لئے پھیل گئی۔ سچائی اور راست بازی کی کھیتیوں نے پامالی پائی اور انسانوں کے بے راہ گلے کا کوئی رکھوالا نہ رہا۔ خدا کی وہ زمین جو صرف خدا ہی کے لئے تھی، غیروں کو دے دی گئی اور اس کے کلمۂ حق و عدل کے غمگساروں اور ساتھیوں سے اس کی سطح خالی ہو گئی۔ ’’زمین کی خشکی اور تری دونوں میں انسان کی پیدا کی ہوئی شرارتوں سے فساد پھیل گیا اور زمین کی صلاح و فلاح غارت ہو گئی‘‘۔ (سورہ روم۔۱۴)
غور تو کرو! مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا ہے کہ تم ان کے آنے کی خوشیاں تو مناتے ہو، پر ان کے ظہور کے مقصد سے غافل ہو گئے ہو اور وہ جس غرض کے لئے آئے تھے، اس کے لئے تمہارے اندر کوئی ٹیس اور چبھن نہیں۔
میلاد النبی ﷺکے موقع پر خوشی منانا اور تاریخ میلاد کا اظہار ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس کا واضح ثبوت ہمیں بخاری شریف کی روایت سے ملتا ہے ۔ یہ ایک ایسا مبارک عمل ہے کہ ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے حالانکہ اُس کی مذمت میں مکمل ایک سورت، سورۂ لہب نازل ہوئی ہے۔ اگر ابو لہب جیسے کافر کے عذاب میں میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشی منانے پر ہر پیرکو تخفیف ہوسکتی ہے تو اُس مسلمان و مومن کی سعادت مندی کا کیا ٹھکانہ ہوگا کہ جس نے اپنی زندگی کو آقائے دو جہاں ﷺ کی میلاد پر خوشیاں منانے بِتاتا ہو۔
حضور نبی اکرم ﷺجو خود بھی اپنی میلاد پر خوشی مناتے اور اُس پر بطورِ اظہارِ نعمت ہر دوشنبہ کو روزہ رکھتے تھے۔ اور یہ شکرانے کا ایک عظیم طریقہ تھا۔ ساتھ ہی یہ حکمِ خداوندی بھی تھا کیونکہ آقائے دوجہاں ﷺکے تصدق سے ہر طرح کی شیٔ کو سعادت مندی حاصل ہوئی ہے۔ میلاد ِرسول پاک ﷺکے موقع پر دائرہ ٔ ادب میں رہ کرجشن منائیں ۔ اس لئے جمہور علماء و فقہاء نے میلاد النبی ﷺکے موقع پر خوشی منانا یہ مستحسن امر سمجھا ہے۔اگر ہم سیرت مصطفی ﷺ کی اہمیت کو بڑھانا اور محبت رسول ﷺ کا جذبہ کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو محفل میلاد منعقد کریں یقیناً یہ محفل ایک کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ اِسی لئے تو ہمارے محلوں کے مساجد میں اور دیگر مقامات پر بڑے اہتمام کے ساتھ فضائل، کمال شمائل، خصائل، کردار اور معجزاتِ آقائے دو جہاں ﷺکا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
کلام پاک میں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کے متعلق واضح طور پر کئی ایک مقامات پر ذکر فرمایا ہے جس سے ایمان والوں کے ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔ ارشاد بارئی تعالیٰ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والے رسول {ﷺ} کو بھیجا‘‘۔ {سورئہ اٰل عمران}
مذہب اسلام میں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں اور اُس کے بے انتہاء فضل و احسان پر شکر بجا لانا بندگی، عبودیت کا تقاضا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے ایک مقام پر اس کی حکمت کو بیان فرمایا ہے وہ بڑی معنی خیز ہے۔ ترجمہ: ’’اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تم پر ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے‘‘۔ {سورۂ ابراہیم، آیت ۷}
مالک ذوالجلال کی عطا کردہ نعمت پر شکر بجالانا اور اس کا اظہار کرنا یہ بھی ایک طریقہ کا شکرانۂ نعمت ہے اور یہ بھی قرآن مجید سے ثابت ہے، ارشاد ہورہا ہے ’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا تذکرہ کریں‘‘۔ {سورۃالضحیٰ، آیت ۱۱} اس آیت پاک میں سب سے پہلے نعمت کے ذکر کا حکم ہے کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت کو دل وجان سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا ذکر کیا جائے۔
سورئہ مائدہ میں ارشاد ہورہا ہے ’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرمادے کہ ہمارے لئے عید ہوجائے، ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے بھی‘‘۔ {سورۂ مائدہ} یہاں مائدہ جیسی نعمت پر عید منانے کا ذکر ہے جس پر عیسائی لوگ آج تک شکرانے کے طور پر اتوارکے دن عید مناتے ہیں۔اب ہمارے لئے لمحئہ فکر یہی ہے کہ نزولِ مائدہ جیسی نعمت پر خوشی منائیں تو کوئی تعجب نہیں، اور ہم ولادت مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر خوشی منائیں تو تعجب؟ ارے اِس نعمت عظمیٰ {میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم } پرمائدہ جیسی سیکڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔
مولائے ذوالجلال ہم تمام کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین