عمر گزرے گی امتحان میں کیا

   

عوام مصیبت میں … مودی پر الیکشن کا جنون
سی اے اے کا بھوت پھر زندہ … انتخابی فائدہ کی فکر

رشیدالدین
یوں تو عام طور پر دو موسم ہوتے ہیں۔ بہار اور خزاں۔ لیکن ہندوستان میں تیسرا موسم بھی اپنا وجود رکھتا ہے اور وہ الیکشن کا موسم ہے۔ اس موسم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا کوئی مقرر وقت یا مدت نہیں ہوتی بلکہ وقفہ وقفہ سے یہ موسم عوام پر حاوی ہوجاتا ہے ۔ ہر سال دو سال میں کسی نہ کسی ریاست میں الیکشن کا سیزن آجاتا ہے اور بسا اوقات سیاسی وفاداری کی تبدیلی اور بغاوت کے ذریعہ وسط مدتی انتخابات کی نوبت آجاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لئے الیکشن کا سیزن پسندیدہ ہوتا ہے جبکہ عوام کیلئے ایک درد سر اور مصیبت کے سوا کچھ نہیں۔ انتخابات کے ذریعہ عوام اپنی پسند کی حکومت کو منتخب اور دوسروں کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن راحت اس وقت ہوگی جب تبدیلی سے فائدہ ہو۔ تبدیلی کے باوجود حالات میں کوئی فرق نہ آئے اور مسائل جوں کا توں برقرار رہیں تو عوام کا جمہوری نظام اور الیکشن پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت ، عوام کی جانب سے بنائی گئی حکومت اور عوام کیلئے حکومت کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن سیاست میں اقدار کی گراوٹ نے اس نعرہ کی اہمیت کو ختم کردیا ۔ سیاسی جماعتیں ایک الیکشن سے سنبھلتی نہیں کہ دوسرا دستک دیتا ہے۔ حکومتوں کا یہ حال ہے کہ پہلا سال سنبھلنے میں اور دوسرا و تیسرا عوامی اسکیمات پر عمل آوری کی تیاری میں گزرتا ہے جبکہ چوتھے سال سے آئندہ الیکشن کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ الیکشن کا سیزن دراصل جھوٹے وعدوں اور ناقابل عمل اعلانات سے پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ ہر پانچ سال میں رائے دہندوں کو تازہ دھوکہ دیا جاتا ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے لئے الیکشن محبوب مشغلہ بن چکا ہے اور وہ ایک جماعتی نظام کے ذریعہ سارے ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ 2014 ء میں بی جے پی کے اقتدار کے بعد ایک جماعتی نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ۔

بی جے پی اپوزیشن کو کمزور کرنے پر ساری توانائی صرف کر رہی ہے اور عوام کی بھلائی کو ثانوی حیثیت بھی نہیں بلکہ فراموش کردیا گیا ۔ ایک جماعتی نظام کے منصوبہ پر عمل آوری کا اس سے بہتر ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ صرف پارلیمنٹ کا سیشن آئے تو محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں اپوزیشن نام کی کسی مخلوق کا وجود باقی ہے جبکہ عام حالات میں سرکاری اور زر خرید گودی میڈیا پر حکومت کے مخصوص چہرے چھائے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی خوبصورتی اور اس کی بقاء اپوزیشن سے ہے ۔ جہاں اپوزیشن نہ ہو وہاں ڈکٹیٹرشپ سر ابھارتی ہے۔ کورونا وباء اور لاک ڈاؤن نے ملک کی معیشت کو اتھل پتھل کردیا ہے اور کوئی شعبہ ایسا نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو۔ عوام ایک طرف کورونا تو دوسری طرف مابعد لاک ڈاؤن بحران سے ابھرے بھی نہیں تھے کہ چار ریاستوں میں انتخابی بگل بجنے کو ہے۔ عوام کو بحران کی اس گھڑی میں سہارا دینے اور معیار زندگی میں بہتری کی فکر کرنے کے بجائے نریندر مودی حکومت انتخابی تیاریوں میں مصروف ہوچکی ہے ۔ مغربی بنگال ، ٹاملناڈو ، کیرالا اور آسام کے انتخابات کا ماحول بگل بجنے سے قبل ہی گرما چکا ہے۔ مودی حکومت کا ہر قدم انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھایا جارہا ہے ۔ کورونا ویکسین کو بھی سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کیا جانے لگا اور مرکزی بجٹ بھی الیکشن بجٹ ہوچکا ہے۔ مرکزی بجٹ ملک بھر کے عوام اور تمام علاقوں کیلئے ہوتا ہے لیکن مودی حکومت کا بجٹ صرف ان ریاستوں کیلئے ہے جہاں انتخابات ہیں۔ چناؤ والی ریاستوں کیلئے فنڈس اور نئے پراجکٹس کا اعلان کیا گیا جبکہ دیگر علاقوں کو مرکز کے فوائد سے محروم رکھا گیا ۔ اگر صرف چناؤ والی ریاستوں کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو تو اسے مرکزی بجٹ کا نام دینے کے بجائے الیکشن بجٹ برائے مغربی بنگال ، کیرالا ، ٹاملناڈو اور آسام کا نام دیا جائے ۔ جس سال جن ریاستوں میں الیکشن ہو بجٹ کو ان ریاستوں کے نام سے موسوم کردیا جائے ۔ جب حکومت صرف الیکشن والی ریاستوں کو فائدہ پہنچانا چاہے تو پھر دوسرے علاقوں کے عوام ٹیکس کیوں ادا کریں۔ مودی حکومت کی انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش دراصل ملک کے وفاقی نظام کو کمزور کردے گی۔ نوٹ بندی سے لے کر کورونا وباء پر قابو پانے اور لاک ڈاؤن کے اثرات کو زائل کرنے الغرض ہر قدم پر مودی حکومت ناکام ثابت ہوئی ہے۔ کورونا کا مکمل طور پر صفایا نہیں ہوا بلکہ نوٹ بندی سے معاشی انحطاط کا آغاز ہوا تھا ، حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں عوامی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔

وٹ بندی سے کالا دھن ختم ہوا اور نہ ہی بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لایا گیا ۔ ہر شہری کے اکاونٹ میں 15 لاکھ روپئے بھلے ہی جمع نہیں ہوئے لیکن حکومت کے قریبی صنعت کاروں کے خزانے بھر گئے اور کالے دھن والے حکومت کی سرپرستی میں بلیک منی کو وائیٹ میں تبدیل کرنے لگے۔ ملک کے نوجوانوں کو مودی نے چائے بنانا ، پکوڑے تلنا اور گندی نالیوں کی گیس سے پکوان کی ترکیب سکھائی لیکن امبانی اور اڈانی کو ملک کے خزانے لوٹنے کا لائسنس تھمادیا ۔ ہندوستانی نوجوان چائے بیچتے رہیں لیکن مودی کے پسندیدہ صنعت کار بینکوں کو ہزارہا کروڑ کا چونا لگاکر ملک سے فرار ہوگئے اور دیگر ممالک میں عیش کر رہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کا بحران ابھی نارمل نہیں ہوا ، لاکھوں افراد بیروزگار ہوگئے عوام کو امید تھی کہ مرکزی بجٹ میں روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں گے اور مہنگائی سے راحت ملے گی لیکن الٹا بیروزگاری اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ انگلینڈ کے خلاف ٹسٹ میں بولر ہونے کے باوجود اشون نے سنچری بنائی تو مودی بھلا خاموش رہنے والے کہاں تھے ۔ ہم کسی سے کم نہیں کے مصداق مودی نے پٹرول قیمت کی سنچری کردی جو آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ نریندر مودی پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کیلئے سابقہ حکومتوں کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔ اقتدار آپ کے ہاتھ میں ہیں ، پالیسی سال آپ کے عہدیدار ہیں ، ایسے میں پیشرو حکومتوں کو ذمہ دار کس طرح اور کیوں کر قرار دیا جاسکتا ہے ۔ خراب کام ہو تو سابقہ حکومت ذمہ دار اور کوئی اچھا کام ہوجائے تو اپنا کارنامہ ۔ واہ رے سیاست۔ اچھا ہوا کہ مودی نے کورونا اور ڈاؤن کے لئے بھی سابقہ حکومتوں کو ذمہ دار قرار نہیں دیا ۔ ان کو ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے ۔ مرکز سے بہتر تو آسام کی بی جے پی حکومت ہے جس نے ریاستی ٹیکسوں میں کمی کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں پانچ روپئے کی کمی کردی ۔ نریندر مودی کو اپنی ریاستی حکومت سے سیکھنا چاہئے بجائے اس کے کہ سابق حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ ویسے بھی گزشتہ سات برسوں میں مودی حکومت کا ایک بھی کام ایسا نہیں جسے کارنامہ قرار دیا جاسکے۔

ریاستوں کے انتخابات سے عین قبل پنجاب میں مجالس مقامی انتخابات کے نتائج عوامی ناراضگی کا ثبوت ہیں۔ مرکزی زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی گئی لیکن کسانوں نے پنجاب میں بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو دھول چٹادی۔ انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کیلئے سی اے اے کے بھوت کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے ۔ ملک بھر میں احتجاج کے بعد حکومت نے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر پر فیصلوں کو موخر کردیا تھا ۔ انتخابات کے ساتھ ہی امیت شاہ کو یہ پسندیدہ مسائل یاد آجاتے ہیں۔ مغربی بنگال ، آسام اور ٹاملناڈو میں انتخابی مہم کے دوران سی اے اے کو بی جے پی اہم موضوع بناسکتی ہے۔ امیت شاہ نے کہا کہ کورونا ٹیکہ اندازی کے بعد سی اے اے پر عمل کے کیا جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کے پاس عوام کا دل جیتنے کیلئے کوئی کارنامہ نہیں ہے ، لہذا مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور سماج کو تقسیم کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کے مقصد سے سی اے اے کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے ۔ سی اے اے اور دیگر قوانین کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والے جہد کاروں پر مقدمات ابھی جاری ہیں۔ ممتا بنرجی نے سی اے اے پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کو بنگال ، آسام اور کیرالا میں سی اے اے اور رام مندر جیسے موضوعات سے کس حد تک فائدہ ہوگا۔ ملک کے عوام باشعور ہوچکے ہیں اور وہ بی جے پی کے ان نعروں کا شکار ہونے والے نہیں ۔ جون ایلیا کا یہ شعر عوامی ترجمانی کی طرح ہے ؎
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا