عمِ رسول حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
شہادت: غزوۂ احد {شوال المکرم ۳ ہجری}

اسلامی تاریخ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر سید الشہداء حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ بڑی جرأت، بہادری، دلیری اور جانثاری کےلئے مشہور ہے۔ آپؓ کی بہادری و جانثاری کی تعریف جہاں مسلمانوں نے کی ہے، وہیں دشمنوں نے بھی تسلیم کی ہے۔ آپؓ جنگ کے میدانوں میں اس بے جگری اور ثابت قدمی سے لڑتے کہ دشمن آپؓ کے مقابلہ کی تاب نہیں لاسکتے۔ آپؓ دین اسلام کی صداقت میں ہمیشہ آگے اور سرگرم رہتے۔ حضور اکرم ﷺسے اسقدر محبت کیا کرتے تھے کہ رسول کی معمولی تکلیف کو بھی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے کفار کے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ ان کے دلوں پر آپؓ کی دھاک بیٹھ گئی۔حضور اکرم ﷺ کو اپنے چچا اور رضاعی بھائی سیدالشہداء حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ آپؓ کو اپنے چچا سے بہت زیادہ لگاؤ اورمحبت تھی۔
غزوۂ بدر میں سیدالشہداء نے بہادری کے جوہر دکھائے اور کفار کے نامور لوگوں کو اپنی تلوار کے وار سے واصل جہنم کئے۔ اس جنگ میں آپؓ کی شجاعت اور ثابت قدمی کے باعث قریش کے کفارکا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا، بڑے بڑے سردار مارے گئے، اس معرکہ میں آپؓ کی بہادری و طاقت کی شہرت ہرطرف پھیل گئی۔ہجرت کے تیسرے سال شوال المکرم میں غزوہ اُحد میں آپؓ نہایت بے جگری سے لڑے اور ۳۱کفّار کو جہنّم واصِل کر کے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجا کر اس دنیا سے رُخصت ہو گئے۔ دشمنوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ آپؓ کے ناک اور کان جسم سے جُدا کر کے پیٹ مبارک اور سینئہ اقدس چاک کر دیا تھا ، اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺکا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہو گئے: آپ پر اللّٰه تعالیٰ کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔
سیدالشہداء امیرحمزہؓ کی ولادت باختلاف روایات ، آپ ﷺ سے دو یا چار برس قبل مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ والد ماجد کا نام عبدالمطلب (قبیلہ بنوھاشم کے سردار اور صاحب فضل و کمال بزرگ تھے) آپ کی کنیت ابوعمارہ اور ابویعلی تھی۔ آپ کے القاب سیدالشہداء، اسداللہ اور اسدالرسول ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی، جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتویں آسمان میں لکھا ہوا ہے ’’حمزۃ اسدﷲ و اسدرسولہ‘‘ ۔ (ماخوذ: مدارج النبوۃ)
ہجرت کے تیسرے سال شوال المکرم جنگ بدر کا بدلہ لینے کے جوش میں کفار قریش کی عورتوں نے غزوہ احد میں شہداء عظام کی لاشوں پر جاکر ان کے کان، ناک و غیرہ اعضاء کاٹ کر صورتیں بگاڑتے ہوئے مثلہ کیا۔ ابوسفیان کی بیوی ’’ہند‘‘ نے تو اس قدر بیدردی کا مظاہرہ کیا کہ اُن کے اعضاء کا ہار بناکر اپنے گلے میں ڈالا۔ ہند، حضرت حمزہ کی لاش مبارک کو تلاش کررہی تھی، جب اس نے حضرت حمزہؓ کی لاش کو پالیا تو خنجر سے انکا پیٹ پھاڑکر کلیجہ نکالا اور اسکو چبائی، لیکن حلق سے نہیں اترا، اسلئے اُگل دیا۔ اسی لئے ہندکو ’’جگرخوار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور یہ لقب اِسی واقعہ کی وجہ سے ہے۔ (زرقانی جلد دوم)
نمازجنازہ: حضور ﷺنے سب سے پہلے سیدالشہداء امیرحمزہ ؓ کا نمازجنازہ پڑھا ہے۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے شہداء احد کے جنازے حضرت امیرحمزہؓ کے پہلو میں رکھے گئے اور آپ ﷺ ہر ایک پر یکے بعد دیگرے الگ الگ نماز جنازہ پڑھائے۔ اس طرح سیدالشہداء پر ستر مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ اس فضیلت میں کوئی اور حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کا شریک نہیں ہے۔جبلِ اُحد کے دامَن میں آپؓ کا مزار دعاؤںکی قبولیّت کا مقام ہے۔اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ آمین۔(ماخوذ: سیرت ابن ہشام جلد دوم، مدارج النبوۃ جلد دوم)
zubairhahsmi7@gmail.com