عوام سے دوبارہ جڑنے مہنگائی کیخلاف سونیا کی آواز

   

وینکٹ پارسا
صدر کانگریس سونیا گاندھی کو ملک میں بڑھتی مہنگائی نے ایک جذباتی منصوبہ بنانے میں مدد کی ہے، مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نے کانگریس میں نئی جان ڈالنے اور پارٹی کو عوام سے دوبارہ جوڑنے کا زرین موقع عطا کیا ہے۔ جہاں تک بڑھتی مہنگائی کا سوال ہے، سماج کا کوئی بھی طبقہ اس کی زد سے محفوظ نہیں رہا۔ اشیائے مایحتاج کی قیمتوں میں اضافہ نے ملک کے ہر گھر کو پریشان کر رکھا ہے۔ عام استعمال کئے جانے والے خوردنی تیل کی قیمتیں 270 روپئے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہیں۔ دالیں فی کیلو 150 روپئے فروخت کی جارہی ہیں۔ ایل پی جی پکوان گیاس سیلنڈروں کی قیمت میں بھی اچانک اضافہ کردیا گیا۔ اب اس کی قیمت 900 روپئے تک پہنچ گئی ہے۔ ان حالات میں کوئی خاتون خانہ کس طرح گھریلو اُمور چلا سکتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ہر خاتون خانہ گھر کے معاملات چلانے میں مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔ اسی طرح پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نے ہر گھر کو متاثر کیا ہے، کیونکہ حمل و نقل کے ذرائع فیول کی قیمتوں میں اضافہ سے شدید متاثر ہوئے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ حکومت خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور کچھ بولتی ہے تو یہی بولتی ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ منصفانہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت عالمی منڈی میں خام تیل 70 ڈالر فی بیارل خرید رہی ہے اور 100 روپئے سے زائد فی لیٹر فروخت کررہی ہے۔ واضح رہے کہ جس وقت ملک میں کانگریس زیرقیادت یو پی اے کی حکومت تھی، عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت فی بیارل 125 ڈالر ہوا کرتی تھی۔ (جہاں تک گیلن کا سوال ہے 3.785 لیٹر ایک گیلن کے مساوی ہوتا ہے اور ایک بیارل میں 42 گیلن یعنی 159 لیٹر پٹرول پایا جاتا ہے)۔ اس کے باوجود کانگریس حکومت نے عوام کو فی لیٹر پٹرول صرف 65 روپئے میں فراہم کیا جبکہ اس وقت ہمارے ملک میں ڈیزل کی قیمت 44 روپئے فی لیٹر تھی۔ اگر ہم اس وقت کی اور موجودہ قیمتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک وجہ نظر آتی ہے۔ کانگریس کے دور میں پٹرول اور ڈیزل پر مختلف اضافی ٹیکس عائد نہیں کئے گئے تھے اور عائد کئے گئے بھی تھے تب وہ بہت کم تھے۔ لیکن مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر جو محاصل عائد کئے ہیں، وہ بالترتیب 33 روپئے اور 32 روپئے فی لیٹر ہیں۔ اگرچہ یہ صرف مرکزی حکومت کی جانب سے عائد کردہ محاصل ہیں اور ان محاصل کے ذریعہ حکومت سالانہ تقریباً 4.2 لاکھ کروڑ روپئے جمع کرتی ہے اور اس کے خزانہ میں یہ رقم جمع چلی جاتی ہے۔ اسے ہم عوام کا بدترین استحصال کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ محاصل کی شکل میں وصول رقومات کو ریاستوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ عوام پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے پریشان ہیں اور دوسری طرف مودی حکومت پٹرول کو جی ایس ٹی کے تحت لانے سے انکار کررہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ من مانی طور پر قیمتوں میں اضافہ کرسکتی ہے، ساتھ ہی اسے اس اضافہ سے حاصل ہونے والے محاصل کی رقم یا اضافی آمدنی ریاستوں کے ساتھ تقسیم بھی نہیں کرنی پڑتی۔ جاریہ سال جنوری سے اب تک مرکزی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 69 مرتبہ ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔ امسال اسے 4.91 لاکھ کروڑ روپئے کی آمدنی ہوئی۔ جبکہ پچھلے سات برسوں کے دوران حکومت نے اس معاملے میں 20 لاکھ کروڑ روپئے کی اضافی آمدنی حاصل کی۔
اب سونیا گاندھی نے مودی حکومت پر یہ واضح کردیا کہ وہ اور ان کی پارٹی عام آدمی کو دن دھارے لوٹے جانے پر خاموش تماشائی بنے نہیں رہیں گے ۔ پٹرول کی قیمتوں نے خاص طور پر گھروں کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر حمل و نقل کے جو ذرائع ہیں، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے وہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک عام آدمی اپنے گھر سے کام کے مقام اور کام کے مقام سے گھر واپس ہوتا ہے، ایسے میں قیمتوں میں اضافہ سے وہ پریشان ہوگیا ہے۔ اب تو بائیک یا اسکوٹر یا پھر کار کا استعمال بہت مہنگا ثابت ہورہا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں 100 کے ہندسوں کو پار کرچکی ہیں۔ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی بڑھاتا جارہا ہے۔ عام دنوں میں بھی مہنگائی ناقابل برداشت ہوتی ہے جبکہ موجودہ دور کا کسی بھی طرح معمول کے دنوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سارے ملک میں کورونا وائرس کی لہر پائی جاتی ہے۔ اس وباء نے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کردیا ہے، ان کی ملازمتیں چھین لی گئی ہیں۔ بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 9% ہوگئی اور جو پچھلے 45 برسوں کی اونچی شرح ہے۔ موجودہ حالات ایسے ہوگئے ہیں جب کروڑہا لوگوں کی آمدنی ؍ تنخواہوں میں کٹوتی کی جارہی ہے۔ لوگوں میں مایوسی بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
صدر کانگریس سونیا گاندھی نے مودی حکومت کو راست طور پر اور پوری طرح اس صورتحال کیلئے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے بطور خاص اڈیشہ کے عوام کا ذکر کیا۔ جہاں تک مہنگائی میں اضافہ کا سوال ہے، اس کے لئے خانگی صارفین کی طلب یا طلب میں اچانک اضافہ نہیں ہے بلکہ مودی حکومت کی غلط پالیسیوں اور اس کا ناقص معاشی نظم ذمہ دار ہے۔ اس کی نااہلی نے موجودہ صورتحال پیدا کی ہے۔ جو بھی حکومت اپنے عوام کی بہبود کا خیال نہیں رکھتی، ان کی مشکلات اور پریشانیوں پر حرکت میں نہیں آتی، وہ عوام کا اعتماد کھو دیتی ہے۔ آج مودی حکومت بھی عوام کی پریشانیوں اور مشکلات میں مدد کرنے سے گریز کررہی ہے اور حکومت مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ قیمتوں میں اضافہ پر تشویش غلط ہے، لیکن کانگریس پارٹی پوری طاقت کے ساتھ مودی حکومت کی مجرمانہ تساہل و غفلت کو بے نقاب کرنے کیلئے حرکت میں آچکی ہے اور بڑھتی قیمتیں اس کے احتجاجی پروگرام میں شامل ہیں۔ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری پٹرول اور ڈیزل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کرے۔ کانگریس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مختلف اشیاء پر عائد کی جانے والی امپورٹ ڈیوٹیز کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تاکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی آسکے۔ کانگریس نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ کئی اشیاء پر عائد جی ایس ٹی کی شرحوں میں بھی کمی کی جائے، کیونکہ یہ ایسی عام اشیاء ہے جو عوام کی بڑی تعداد استعمال کرتی ہے۔ سونیا گاندھی یہ سمجھ چکی ہیں کہ صرف اس طرح کے اقدامات ہی عوام کو بڑھتی مہنگائی کے بوجھ سے راحت دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف آر بی آئی نے افراط کا ہدف 4% رہا ہے۔ یہ 2% کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔ سی پی آئی (کنزیومر پرائس انفلیشن) پہلے ہی 6% کی بالائی حد کو پھلانگ چکا ہے اور یہ این ایس او کے مطابق 6.2% ہوگیا ہے۔ شہری سی پی آئی جو مئی میں 5.91% تھا، بڑھ کر مئی میں 6.3% ہوگیا۔
کانگریس نے فی الوقت 3 نکات پر توجہ مرکوز کی ہے، ایک فیول کی قیمتوں پر۔ اس معاملے میں اپوزیشن کے سخت احتجاج کے باوجود حکومت، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہے۔ بعض ریاستوں میں پٹرول کی قیمتیں 112 روپئے فی لیٹر تک پہنچ چکی ہیں جبکہ بہار جیسی پسماندہ ریاست میں ایل پی جی سلنڈر 933 روپئے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے کئی ایک اشیاء بشمول ٹوتھ پیسٹ اور پروسیس فوڈ دیگر غذائی اشیاء، گھریلو ساز و سامان وغیرہ پر 12% تا 18% جی ایس ٹی عائد کیا ہے۔ درحقیقت جی ایس ٹی ایک بالواسطہ ٹیکس ہے۔ بہرحال سونیا گاندھی نے ایک ایسے وقت عوام سے جڑنے بڑا قدم اُٹھایا ہے، جب صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث پیدا صورتحال کا خاتمہ ہو اور عام آدمی کو راحت ملے۔ ٭