عوام کو راحت رسانی پر اعتراض

   

ہر سمت دور دورہ ہے خوف و ہراس کا
ذمے ہے جنکے امن و اماں سب مزے میں ہیں
ہندوستان میں حالیہ چند برسوں میں حکومتوں کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے ۔ عوام کو راحتیں پہونچانے کی سمت کچھ جماعتیں راغب ہوئی ہیں اور عوام اس کو پسند بھی کر رہے ہیں۔ اکثر و بیشتردیکھا گیا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے صنعتوں کے قیام کیلئے امداد فراہم کی جاتی ہے ۔ انہیں زمینات الاٹ کی جاتی ہیں۔ انہیں برقی اور پانی رعایتی شرحوں پر دیا جاتا ہے ۔ ان کیلئے نت نئے قوانین بنا کر سہولت دی جاتی ہے ۔ اس کے برخلاف عوام کو راحت پہونچانے میں انتہائی عدم دلچسپی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ اکثر کہا جاتا تھا کہ حکومتیں ان صنعت کاروں کو راحت پہونچاتی ہیںاور انہیں رعایتیں دی جاتی ہیں جو ان کی جماعت کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹس اور صنعتوں کے اشاروں پر عوام پر بوجھ عائد کرنے کا سلسلہ بھی جا ری رہا کرتا تھا ۔ تاہم گذشتہ چند برسوں میں اس صورتحال میں کچھ تبدیلی آئی ہے ۔ حالانکہ کاریٹ گھرانوں اور صنعتکاروں کو راحتیں اور رعایتیں دینے میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے لیکن کچھ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ریاستوں میں عوام کو بھی ممکنہ حد تک راحت فراہم کرنے میں آگے آ رہی ہیں۔ کسی ریاست میں عوام کو ایک حد تک مفت بجلی سربراہ کی جا رہی ہے تو کہیں پانی کو ایک حد تک مفت سربراہ کیا جا رہا ہے ۔ کہیں معمر خواتین اور بیوہ خواتین کو وظائف دئے جا رہے ہیں تو کہیں بیروزگار نوجوانوں کو بیروزگاری بھتہ دینے کی بات کی جا رہی ہے ۔ کہیں بسوں میں خواتین کیلئے سفر کو مفت کردیا گیا ہے تو کہیں سرکاری دواخانوں کی حالت کو بدل کر عوام کو راحت دی جا رہی ہے ۔ کہیں سرکاری اسکولس کو معیاری کردیا گیا ہے تو کہیں نوجوانوں کو اعلی تعلیم کیلئے بیرون ملک جانے اسکالرشپس دی جار ہی ہیں۔ کہیں اقامتی اسکولس قائم کرکے تعلیم کو فروغ دیا جا رہا ہے تو کہیں نوجوانوں کو مختلف شعبہ جات میں مہارت کی تربیت دی جا رہی ہے ۔ اس معاملہ میں عام آدمی پارٹی سب سے آگے دکھائی دیتی ہے ۔ دہلی میں عوام کو کئی طرح کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے دہلی کے عوام نے عام آدمی پارٹی کو مسلسل اقتدار حوالے کیا ہے ۔
اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے اس طرح کی اسکیمات اور اقدامات پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔ کچھ قائدین اسے سرکاری خزانہ پر بوجھ قرار دیتے ہیں تو کچھ اس کو ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ قرار دیتے ہیں۔ اب خود ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس پر اعتراض کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے اس طرح کی اسکیمات کو ’’ ریوڑی کلچر ‘‘ قرار دیا ہے اور ان کا دعوی تھا کہ اس کی وجہ سے ملک کی ترقی متاثر ہو رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اگر مطمئن زندگی گذاریں گے اور حکومتوں سے انہیں راحت ملتی ہے تو اس سے استحکام پیدا ہوگا اور اس کے نتیجہ میں ترقی کی رفتار میں تیزی آسکتی ہے ۔ مرکز کی بی جے پی زیر قیادت حکومت کی جانب سے عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے کارپوریٹس کو مستحکم کیا جا رہا ہے ۔ انہیں ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضہ جات فراہم کئے جا رہے ہیں اور یہ لوگ قرضہ جات ادا کرنے کی بجائے بیرونی ملکوں کو فرار ہو رہے ہیں۔ کالا دھن بیرون سے آنے کی بجائے ہندوستان کے عوام کی دولت بیرون ملک منتقل ہو رہی ہے ۔ کارپوریٹس کو ملک کے عوام کے اثاثہ جات سونپ دئے جا رہے ہیں۔ ائرپورٹس سے لے کر ریلویز تک ‘ ٹیلی فون خدمات سے لے کر بندرگاہیں تک سبھی کچھ اپنے حاشیہ بردار کارپوریٹس اور تجارتی گھرانوں کو سونپا جا رہا ہے ۔ ملک کے عوام کو راحت پہونچانے پر اعتراض کیا جا رہا ہے لیکن صنعتکار دوستوں کو بے تحاشہ راحتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کارپوریٹس کی دھاندلیاں ترقی پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے عوام پر مسلسل بوجھ عائد ہوتا جا رہا ہے ۔
دہلی میں ایک مثال اروند کجریوال کی حکومت نے قائم کی ہے ۔ دہلی کے بجٹ میں کسی خسارہ کے بغیر اسے دوگنا کردیا گیا ہے ۔ عوام پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے ۔ صرف کرپشن کو ختم کرتے ہوئے اور انتظامیہ کو جوابدہ بناتے ہوئے عوام کو راحتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہیں مفت بجلی ‘ مفت پانی دیا جا رہا ہے ۔ بسوں میں خواتین کے سفر کو مفت کردیا گیا ہے ۔ دواخانوں کی حالت میں سدھار لایا گیا ہے ۔ محلہ کلینکس کا جال بچھادیا گیا ہے ۔ دہلی کے سرکاری اسکولس خانگی اسکولس سے آگے نکل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ محض عوام کو راحت پہونچانے کے جذبہ سے ممکن ہوسکتا ہے ۔ عوام کو راحت رسانی پر اعتراض کی بجائے اس کام کو آگے بڑھانے کے جذبہ کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔
کمزور اپوزیشن تشویش کا باعث
ہندوستان میں جس وقت سے بی جے پی زیر قیادت حکومت مرکز میں تشکیل پائی ہے ایک بات سبھی نے محسوس کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ملک کے چیف جسٹس ‘ جسٹس این وی رمنا نے بھی اپوزیشن کے کمزور ہونے اور بتدریج ختم ہونے پر ایک طرح سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ آج ملک میں صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ سیاسی اختلاف کو دشمنی سمجھا جا رہا ہے اور یہ ایک صحتمند جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ چیف جسٹس کی تشویش حقیقت پسندانہ ہے ۔ آج ملک کے جو حالات کردئے گئے ہیں ان میں سیاسی اختلاف کو شخصی دشمنی کی سطح تک لادیا گیا ہے ۔ اختلاف رائے کو غداری اور ملک دشمنی سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو جیل بھیجا جا رہا ہے اور ان کے خلاف مقدمات درج کئے جار ہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کیلئے حکومتوں کی جانب سے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ صحتمند جمہوریت میں ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ جمہوریت میں اپوزیشن اور اختلاف رائے کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اختلاف رائے کا احترام کرتے ہوئے مثبت ماحول میں ملک اور قوم کی ترقی کیلئے کام کیا جاسکتا ہے لیکن آج ہر کام منفی سوچ کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صورتحال کو تبدیل کیا جائے ۔ سیاسی اختلاف رائے کا احترام کیا جائے اور اپوزیشن کو تعمیری کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کا طرہ امتیاز ہوگا۔