عید الفطر اور ہماری ذمہ داریاں

   

قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری
اللہ جل جلالہٗ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’جس نے بھی تزکیہ کی کوشش کی وہ کامیاب ہوا‘‘ (سورۃ الاعلی) مسلسل ایک ماہ امتحان میں بیٹھنے کے بعد جب نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے تو وہ انسان کے لئے فطرتاً خوشی و مسرت کا دن کہلاتا ہے۔ یہ ایسا امتحان ہے کہ اس میں شریک ہونے والا ہر فرد کامیاب و کامران ہوتا ہے اور ایسی کامیابی کو کبھی فنا نہیں۔ دنیا میں ہر قوم کا کوئی نہ کوئی دن خوشی کا ہوتا ہے۔ اس دن وہ قومیں اپنے مذہبی اور اخلاقی قیود سے آزاد ہو جاتی ہیں اور ان کے نزدیک جشن، پابندیوں سے رہائی کا نام ہے، مگر اسلام کا نظریہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ مسلمانوں کا جب کوئی دن خوشی و مسرت کا آتا ہے تو اس میں اخلاقی قدریں اور اجاگر ہوجاتی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی جب مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ اہل مدینہ سال میں دو دن ایسے مقرر کر رکھے ہیں، جن میں کھیل کود اور لہو و لعب بھی شامل تھے۔ چوں کہ آپ نے فرمایا کہ اسلام قلب میں روحانیت اور طبیعت میں نیکی اور شرافت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پھر آپ نے سابقہ تہواروں کے بدلے دو دن خوشی کے مقرر فرمائے ایک عید الفطر اور دوسرے عیدالاضحی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ ایسے دو دن ہیں، جس میں اللہ تعالی کی تسبیح زیادہ کی جائے اور یہ کلمات خیر وِرد زباں رہے: ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘۔
اللہ عز و جل نے ماہ صیام کی تکمیل پر شکر بجالانے کا حکم دیا ہے، ارشاد خداوندی ہے
’’ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَّبِرُوا اللّٰہَ
عَلٰی مَاھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘۔
مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ غم اور خوشی میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں۔ کامیاب بندہ وہ ہے، جو کامیاب شاکر بن کر زندگی گزارے اور وہ جس حال میں رکھے، راضی رہے۔ کبھی زبان پر حرف شکایت نہ آئے، بلکہ صبر و استقامت کا پیکر بنیں۔

مذہب اسلام میں عید سعید کی بے حد فضیلت ہے، چنانچہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما راوی ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’عید الفطر کی مبارک رات کو لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات سے یاد کیا جاتا ہے اور عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ عز و جل اپنے معصوم فرشتوں کو دنیا میں نزول فرماتا ہے۔ چنانچہ وہ فرشتے زمین پر پھیل جاتے ہیں اور اس طرح ندا کرتے ہیں اے محمد! (ﷺ) اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مخاطب ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! جو مانگنا ہے مانگو، میری عزت و جلال کی قسم! دنیا و آخرت کی بھلائی کے تعلق سے جو تم سوال کرو گے اسے پورا کیا جائے گا۔ میری عزت و جلال کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے تو میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔ میری عزت و جلال کی قسم! میں تمھیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا۔ پس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہو گیا‘‘۔
(الترغیب و الترہیب)

مذکورہ حدیث شریف میں مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ عموماً لوگ ایسی عظیم الشان ساعتوں میں صرف دنیا کی بہتری کی تمنا کرتے ہیں، انھیں چاہئے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بہتری کی بھی دعاء مانگیں۔ دین پر استقامت، خاتمہ بالخیر، جنت البقیع میں مدفن اور جنت الفردوس میں سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا قرب بھی دعاء میں شامل کرنا اہل ایمان کا طریقہ عمل رہا ہے، اسے ہرگز فراموش نہ کریں۔ خرافات کا ارتکاب کرکے یوم عید کو اپنے لئے یوم وعید نہ بنایا جائے۔ دراصل عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لئے، بلکہ عید تو اس کی ہے جو عذاب الہی سے ڈر گیا۔

مکاشفۃ القلوب میں درج ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ عید کے دن اپنے صاحبزادے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رو پڑے۔ بیٹے نے عرض کیا ’’ابا جان! آپ کس لئے اشکبار ہیں؟‘‘۔ فرمایا ’’بیٹے! مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تمھیں اس پرانی قمیص میں دیکھیں گے تو تمہارا دل ٹوٹ جائے گا‘‘۔ بیٹے نے جواباً عرض کیا ’’دل تو اس کا ٹوٹے گا، جو رضائے الہی حاصل نہیں کرسکا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی رضامندی کے طفیل اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے راضی ہوگا‘‘۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے صاحبزادے کو گلے سے لگا لیا اور اس کے لئے دعائے خیر فرمائی۔