غزوہ ٔاُحد اور صحابہ کرام ؓکی جاں نثاری

   

حافظ فیض رسول قادری

۲ ہجری ۱۷ رمضان المبارک میں غزوۂ بدر ہوا اور ۳ھ شوال کے مہینے میں آٹھ یا تیرہ یا پندرہ تین روایتیں موجود ہیں میں ایک سال بعد غزوۂ اُحد ہوا۔ غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو لے کر باطل کی چٹانوں سے ٹکرانے کیلئے عظمت اسلام کی خاطر خود شریک ہوں۔غزوہ احد میں مشرکین کی تعداد تین ہزار تھی اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافقین شامل تھے۔رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بظاہر مسلمان ہوگیا تھا لیکن دل و نگاہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ مشرکین مکہ سے اس کے روابط قائم تھے یہ دوسرے منافقین مدینہ کے ساتھ سازشوں میں مصروف رہا۔ مدینہ سے نکلتے وقت یہ اسلامی لشکر میں موجود تھا لیکن طلوع فجر سے کچھ دیر پہلے اسلامی لشکر نے مارچ کیا۔ نماز فجر شوط میں ادا کی جہاں سے دشمن کا لشکر صاف نظر آ رہا تھا تو عبداللہ بن ابی نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت صدائے احتجاج بلند کی کہ جنگ کے بارے میں ہماری بات نہیں مانی گئی کہ ہم مدینہ میں محصور ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن چند نوجوانوں کے کہنے پر کھلے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔ پس عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ اسلامی لشکر سے علیحدہ ہوگیا۔(ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، سیرۃ الرسول)سو ایک ہزار میں سے تین سو منافق نکل گئے باقی خالص ایماندار حضور ﷺکے عاشق رہ گئے۔ مسلمانوں کا صرف سات سو کا لشکر ہے جبکہ دوسری طرف مشرکین کا تین ہزار کا لشکر پوری تیاری کے ساتھ آیا۔ کافروں کا سپہ سالار ابوسفیان تھا۔ اس کے ساتھ عمرو بن عاص اور خالد بن ولید بھی تھے جن کو بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا تھا۔ مشرکین مکہ اپنے بڑوں کا بدلہ لینے کے لئے بڑے زور و شور سے آئے۔ سب انتقام، انتقام کہتے ہوئے مکہ سے چل کر مدینہ پہنچ گئے۔ مدینہ شریف سے ڈھائی تین میل کے فاصلے پر اُحد پہاڑ ہے۔ احد پہاڑ کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’احد پہاڑ سے جنت کی خوشبو آتی ہے‘‘۔
غزوہ احد پہاڑی جنگ تھی آقا علیہ السلام نے پچاس مجاہدوں کی ایک درّے پر ڈیوٹی لگادی کہ تم اس درّے پر کھڑے رہنا۔ دونوں پہاڑوں کے درمیان راستہ ہو تو اسے درّہ کہتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم نے یہاں سے ہٹنا نہیں یہاں تک کہ میں آپ کو حکم نہ دوں کہ درّہ چھوڑ دو۔ جنگ شروع ہوئی ابتداء میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عظیم فتح ہوئی۔ مشرکین مکہ کے سارے جرنیل احد سے کئی میل کے فاصلہ پر بھاگ گئے تو درے پر جو صحابہ رضی اللہ عنہم تھے انہوں نے دیکھا کہ اب تو مشرکین مکہ کو شکست ہوگئی ہے۔ وہ بھاگ گئے ہیں اب درے سے نیچے اتر جائیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ درے پہ کھڑے رہنے کا حکم اس وقت تھا جب تک کافروں کے سپاہی سامنے ہوں یہ سوچ کر وہ پچاس صحابہ رضی اللہ عنہم نیچے اتر آئے اور مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نوجوان سپاہی تھے اس وقت وہ کافروں کے لشکر میں شامل تھے۔انھوں نے دیکھا کہ درے کا راستہ خالی ہے تو انہوں نے اپنے سپاہیوں کو کہا دوڑو موقع ہے جب وہ دوڑ کر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مال غنیمت جمع کر رہے ہیں انہوں نے درّہ خالی ہونے کی وجہ سے موقع پاکر فوراً حملہ کر دیا جس سے افراتفری پھیل گئی۔ میدان احد میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ آقا علیہ السلام کے دندان مبارک اور ہونٹ مقدس زخمی ہوگئے۔ جانثار صحابہ کرام آقا علیہ السلام کے پسینے کا قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے دیتے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہو کر زمین پر رونق افروز ہوئے تو ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہیں آ رہے۔ ادھر شیطان نے آواز دی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس آواز نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاؤں اُکھیڑ دیئے۔ پاؤں ڈگمگا گئے تو کوئی ادھر دوڑا، کوئی ادھر دوڑا۔

قرآن کی آیت ہے: إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ جب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔
مسلمانوں کو احد میں شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ فتح حاصل ہوئی تھی۔ اس کے متعلق بہت سی دلیلیں ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل یہ ہے جسے شکست ہو وہ میدان چھوڑکر بھاگ جاتا ہے اور جو میدان میں کھڑا رہے اس کو شکست خوردہ نہیں کہتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو اسی میدان میں رہے تھے بھاگے تو کافر تھے۔ کوئی فرلانگ اِدھر ہوگیا کوئی فرلانگ اُدھر ہوگیا۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور ﷺکے پاس تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ حضور ﷺ شیطان نعرہ لگا رہا ہے۔ حضور ﷺ فوراً گڑھے سے اٹھے تو آفتاب نبوت کی کرنوں نے میدان کو گھیر لیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نعرے بلند کئے تو کافروں نے تیر پھینکنے شروع کر دیئے۔ تیروں کی بوچھاڑ آقا علیہ السلام کی طرف ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سامنے آ کر سینہ تان کر کھڑے ہوگئے کہ تیر مجھے لگے میرے سرکار کو نہ لگے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے کافروں کے تیر روکتے ہیں اور کسی تیر سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔دراصل آقا علیہ السلام کی مبارک نگاہ پڑی تو جو تیر آتا ہے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے روک کر کافروں کی طرف پھینکتے ہیں جس سے کافروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مشرکین مکہ واصل جہنم ہو رہے ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی اس بہادری کے منظر کو دیکھا تو زبان نبوت سے ایسا اعزاز، انعام نصیب ہوا جو سوائے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ حضور ﷺنے فرمایا : سعد رضی اللہ عنہ ایک تیر اور پھینک تیرے تیر پھینکنے پر میرے ماں باپ قربان۔

احد کا واقعہ بڑا نازک اور دلخراش ہے۔ میدان احد میں بڑا نقصان ہوا۔ سب سے پہلا اور بڑا نقصان امام الانبیاء ﷺکا زخمی ہونا۔ دوسرا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہونا اور تیسرا ۷۰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا شہید ہونا۔ تمام محدثین اور تمام دنیا کے فاتحین نے جب غزوہ احد پر نظر ڈالی کہ یہ نقصان کیوں ہوئے تو یہ راز سامنے آیا کہ آقا علیہ السلام کے حکم سے خطاء اجتہادی کی وجہ سے یہ نقصان ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جان بوجھ کر حضور ؐکا حکم نہیں توڑا۔ اس اجتہادی لغزش پر طعن و ملامت کی گنجائش نہیں بلکہ مجتہدین نے فرمایا اجتہادی خطاء پر بھی ایک درجہ ثواب ملتا ہے۔ حضور ﷺ کا حکم تھا اس درے پر کھڑے رہنا جب تک میں نہ کہوں نیچے نہ اترنا۔ ابتدائی جنگ میں جب دشمن بھاگ گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ جنگ ختم ہوجائے تو نیچے اتر جائیں کوئی خطرہ نہیں یہ سمجھ کر وہ درے سے نیچے اترے اور دشمن نے حملہ کر دیا۔اس سے ہمیں اطاعت امیر کا سبق ملتا ہے جس میں کامیابی و کامرانی کا راز مضمر ہے۔