غزہ جنگ بندی اور مسلم دنیا

   

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
غزہ میں پندرہ مہینوں کی نسل کشی اور بے تحاشہ تباہی کے بعد بالآخر جنگ بندی کا آغاز ہوگیا ہے ۔ حالانکہ یہ جنگ بندی اسرائیل کے جارحانہ عزائم کی وجہ سے کسی بھی وقت متاثر ہوسکتی ہے تاہم فی الحال اس پر عمل آوری شروع ہوگئی ہے اور کچھ وقفہ کیلئے غزہ کے شہریوں اور فلسطینی باشندوں کو معمولی سی راحت ضرور ملی ہے ۔ لگاتار بم حملوں اور لڑاکا طیاروں کی گھن گرج سے انہیں چھٹکارہ حاصل ہوا ہے ۔ جیسے ہی اتوار کو جنگ بندی کا آغاز ہوا فلسطینی باشندے اپنے گھروں کی سمت واپسی کرنے لگے تھے ۔ حالانکہ کئی بستیاں ایسی ہیں جو پوری طرح اجڑ چکی ہیں اور وہاں کوئی گھر سلامت نہیں بچا ہے ۔ صرف ملبہ کا ڈھیر ہی رہ گیا ہے اور کئی گھروں کا اتہ پتہ بھی معلوم نہیں ہو پا رہا ہے ۔ جنگ بندی کے آغاز کے ساتھ ہی غزہ کے شہریوں کیلئے امدادی ساز و سامان پر مشتمل ٹرکس بھی غزہ میں داخل ہونے شروع ہوگئے ہیں تاکہ انہیںبنیادی اور ضروری ساز و سامان فراہم کیا جاسکے ۔ اسرائیل اور حماس کی اس جنگ بندی کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی کاوشوں سے ہی یہ جنگ بندی ممکن ہوسکی ہے ۔ جنگ بندی کسی کی بھی کاوش سے ممکن ہوئی ہے یہ حقیقت ہے کہ جنگ بندی ہوچکی ہے ۔ ایسے میں سارے دنیا کے اور خاص طور پر علاقہ کے مسلم ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطین کے بے بس اور مظلوم عوام کو راحت پہونچانے کیلئے فوری حرکت میں آجائیں۔ فلسطین کے باشندے گذشتہ پندرہ مہینوں سے انتہائی نامساعد اور غیرانسانی حالات میں زندگی گذار رہے تھے ۔ یہ ان ہی کا حوصلہ تھا کہ وہ اب تک صحیح سلامت ہیں اور ان کے حوصلے نہیں ٹوٹے ہیں۔ انہیں غذا ‘ ادویات ‘ پانی جیسی بنیادی سہولیات کی قلت کا سامنا ہے ۔ ان میں ضعیف العمر افراد اور معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ خواتین اور مرد بھی شامل ہیں۔ کئی دواخانے ایسے ہیں جن کا وجود ہی ختم ہوچکا ہے ۔ بمباری اور فضائی حملوں کے ذریعہ انہیںتباہ و برباد کردیا گیا ہے ۔ جنگ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کی ہلاکت کے علاوہ بے شمار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور انہیں علاج و معالجہ کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے ۔
غزہ کے شہریوں کیلئے جنگ بندی حالانکہ کچھ راحت ضرور ہے لیکن ان کے سامنے اپنے گھروں کا پتہ چلانا اور انہیں رہائش کے قابل بنانا بھی ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہے ۔ سب سے پہلے انہیں چند دن کی تغذیہ بخش غذاء فراہم کی جانی چاہئے اور انہیں ادویات کی سہولت بھی دی جانی چاہئے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے غزہ میں سہولیات سے لیس دواخانوں کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے ۔ مسلم ممالک کو اس کام میں سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔علاج و معالجہ کی سہولت نہ ہونے سے بھی کئی زخمی زندگی کی لڑائی ہارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ غذاء اور دواء کے ذریعہ ان میں زندگی کو بچایا جاسکتا ہے ۔ انتہائی شدید زخمی بھی ہیں جنہیں فوری طورپر علاج کی ضرورت ہے ۔ اس ضرورت کی تکمیل کیلئے مسلم ممالک کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ غذائی اجناس کی فراہمی کیلئے بھی فراخدلانہ تعاون کیا جانا چاہئے ۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعہ یہ کام کیا جاسکتا ہے ۔ جنگ بندی کے نتیجہ میں امدادی قافلوں پر حملوں کے اندیشے نہیں رہ گئے ہیں ۔ اس سہولت سے استفادہ کیا جانا چاہئے اور ممکنہ حدتک اس سلسلہ میں کام کیا جانا چاہئے ۔ غزہ کی تعمیر جدید ایک ایسا مرحلہ ہے جو فوری طور پر شروع نہیں ہوسکتا ۔ اس کیلئے مزید وقت اور وسائل درکار ہونگے ۔ ایسے میں پہلے مرحلہ میں غذا اور دوا کی فراہمی بہت زیادہ ضروری ہے اور اس میں تمام مسلم ممالک کو اپنا تعاون کرنا چاہئے ۔ کسی طرح کی رکاوٹ پیدا ہونے نہ پائے اس کو بھی یقینی بنانا چاہئے ۔
علاقہ کے مسلم ممالک اور دوسرے فکرمند مسلم ممالک اقوام متحدہ کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں ایک جامع منصوبہ تیار کرسکتے ہیں۔ غذائی اجناس کے علاوہ دیگر جو بنیادی ضروریات کے ساز و سامان ہیں ان کی روانگی کیلئے اقوام متحدہ کے اداروں کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل پر بھی اثر انداز ہونا چاہئے کہ جنگ بندی کو عارضی رکھنے کی بجائے اسے مستقل قرار دیا جائے تاکہ نہتے اور بے بس فلسطنیوں کو راحت مل سکے اور وہ از سر نو اپنی زندگیوں کا آغاز کرسکیں اور زندگی گذارنے کے وسائل بھی انہیں دستیاب ہوسکیں۔ مسلم ممالک کو اس جانب خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔