غزہ میں دو تہذیبوں کا تصادم

   

ظفر آغا
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو فرماتے ہیں کہ غزہ پٹی پر حملہ ایک تہذیبی سوال ہے۔ ہے اس کا کوئی جواب؟ مغربی ممالک کی پشت پناہی سے کارفرما اسرائیل کی تہذیب کے اصول یہی ہو سکتے ہیں۔ لاکھوں فلسطینیوں کا محاصرہ کر کے ان کا آب و دانہ بند کرنا، بے گناہ انسانوں پر بمباری کرنا، ان کی جان و مال پر حملہ کرنا، اسپتالوں پر بمباری کرنا جسے ’تہذیبی‘ اصول اسرائیل کا لائحہ عمل تھا، ہے اور رہے گا۔ بے شک غزہ پر اسرائیلی حملہ ایک تہذیبی سوال ہے۔ لیکن کون سی تہذیب اور کس کی تہذیب! حقیقت میں غزہ کی جنگ تہذیبی مسئلہ ہی ہے۔ یہ دو تہذیبوں کے درمیان ایک تہذیبی تصادم ہی ہے۔ ایک جانب مغربی تہذیب اور دوسری جانب فلسطینی تہذیب۔ مغربی تہذیب کے اصول و ضوابط الگ ہیں، جبکہ ایشیائی تہذیب کا اپنا جدا رنگ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغرب کم از کم تین سو سال سے اپنی جنگی تہذیب پر ہی گامزن ہے۔ دنیا واقف ہے کہ پچھلے تین سو برسوں میں مغرب جنگی تہذیب کا علمبردار رہا ہے۔ ایشیائی اور افریقی ممالک تو اپنا تہذیبی ماڈل مسلط کرتے ہیں اور یہی ان کا شیوہ ہے۔ محض ہندوستان کو مہذب کرنے کے لیے مغرب نے ہمارے ملک کو غلام بنایا۔ اس غلامی کا ہندوستان نے کیا خمیازہ بھگتا وہ ایک ہولناک تاریخ ہے۔ سنہ 1857 میں آخری مغل چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں جو جنگ آزادی چھڑی، محض اس میں ہی دو کروڑ ہندوستانیوں کی جانیں گئیں۔ تاریخ نویس امریش مشرا کے مطابق اس جنگ آزادی میں دو کروڑ ہندوستانی مارے گئے۔ محض دہلی میں لاکھ دو لاکھ جانیں گئیں۔ لال قلعہ جیسی عمارت سے انگریز نہ جانے کتنا مال و دولت لوٹ کر برطانیہ لے گئے۔ حد یہ ہے کہ اس وقت شاہجہان آباد سے تمام شہریوں کو بے دخل کیا گیا۔ دنیا کا سب سے قیمتی ہیرا برطانوی بادشاہ کے تاج کی زینت ہے۔ قتل و غارت گری کا ہی دوسرا نام مغربی تہذیب ہے۔
مشرق وسطیٰ میں مغربی داروغہ اسرائیل اب اپنے علاقہ میں اسی تہذیبی اقدار کی حفاظت کر رہا ہے۔ تب ہی تو لاکھوں فلسطینیوں کا آب و دانہ بند ہے اور جس طرح سے بے گناہ انسانوں کی جان و مال کا زیاں ہو رہا ہے وہ محض ایک اسرائیلی تہذیب کی غمازی کرتا ہے۔
ایسا نہیں کہ دنیا میں تہذیبی اصول کا کوئی ماڈل موجود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت دوسری جنگ عظیم کے بعد امن و جنگ کے اصول بنائے گئے جس کی پابندی ہر ممبر کے لیے لازم ہے۔ مثلاً جنگ کے دوران شہری آبادی کو جنگ سے بچانا، اس کے لیے کھانے پینے اور علاج جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا جیسے بنیادی انسانی حقوق کی پابندی لازم ہے۔ لیکن ایسے اصول کی پابندی اسرائیل جیسے ’مہذب‘ ملک پر لاگو نہیں ہوتی۔ تب ہی تو غزہ کے جو حالات ہیں اس سے سب واقف ہیں اور تہذیبی ممالک اپنی جنگی قدروں کو لازم کر رہے ہیں۔ مگر غزہ میں اسرائیل اقوام متحدہ کے جنگی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اور تو اور دنیا ان اصولوں کی خلاف ورزی کی تماش بین بن رہی ہے۔ کچھ ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں، لیکن دو سرائیلی پڑوسیوں کے علاوہ تمام ممالک محض زبانی فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ اس کا جواب محض یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی مغربی تہذیب کے ہم نوا ہیں۔
اس عالمی تہذیبی پس منظر میں آخر فلسطینی کریں تو کریں کیا! ان کے بس میں ہے ہی کیا سوائے جان کی قربانی دینے کے۔ سو وہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہر زندہ قوم کو آزادی حاصل کرنے کے لیے یہ قیمت چکانی ہی پڑتی ہے۔ سو وہ قیمت فلسطینی ادا کر رہے ہیں۔
لیکن کیا کبھی فلسطینیوں کو اس قیمت کا صلہ ملے گا! کیوں نہیں۔ جیسے ہندوستان، جنوبی افریقہ اور نہ جانے کتنے ممالک ہیں جنھوں نے اس قیمت کو ادا کر آخر آزادی حاصل کی۔ ہندوستان اور ان کے جیسے درجنوں ممالک قربانیاں دے کر آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پھر بھلا فلسطین کیوں نہیں ہوگا! فلسطینیوں کی قربانی رائیگاں نہیں ہونے والی۔ لیکن کب اور کیسے؟ اس کا جواب تاریخ دے گی۔