غير مسلم شعراء كا بارگاہ رسالت میں إظهار عقيدت هندوستان كي مذهبي رواداري كي عمده مثال

   

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ باکمال ہستی ہے، جو سراپا تعریف و مدح ہے، جن کی ہر آن و لحظہ تعریف و توصیف کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں، ہر زمان و مکان میں ان کی مدحت کا چرچا ہوتا رہتا ہے، ہر زبان و بیان میں ان کے محاسن و کمالات کے موتی پروئے جاتے ہیں۔ اپنے تو اپنے غیر بھی ان کے گرویدہ اور دام محبت کے اسیر نظر آتے ہیں۔ حقیقی فضل و کمال وہ ہوتا ہے، جس کی گواہی دشمن دیا کرتے ہیں، لیکن بعض ایسے حقائق ہوتے ہیں، جن کا اعتراف ناگزیر ہوتا ہے، وہاں انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کوئی آفتاب و مہتاب کی تعریف کرے یا نہ کرے، اس کی روشنی و ضیا پاشی کا اعتراف کرے یا نہ کرے، کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ایک حقیقت ثابت ہے۔ اسی طرح کوئی عقل سلیم رکھنے والا بلالحاظ مذہب و ملت نبی اکرم ﷺ  کے اوصاف و کمالات، محاسن و محامد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس آفتاب و مہتاب کی طرح ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، جن کی محراب عظمت کے سامنے اپنے پرائے، دوست دشمن، ہندو مسلم اور سکھ عیسائی سبھی سرنیاز خم کئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ مہاراجہ سر کشن پرشاد جو نظام حکومت حیدرآباد دکن کے صدر اعظم رہے ہیں، انھوں نے نبی اکرم ﷺسے متعلق جس والہانہ شیفتگی اور عقیدت کا اظہار کیا ہے، وہ بجاطورپر سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ شادؔ حضور نبی کریم ﷺپر جان و دل سے فدا ہوتے ہوئے عرض گزار ہیں:
پرتو ذات احد جلوۂ سر عجمی
روکش مہر حقیقت تو چہ عالی نسبی
چہ کنم وصف تو اے ہاشمی و مطلبی
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
یا نبی مونس جان و دل عشاق توئی
خاک راہ تو شوم ہست تمنائے دل
شادؔ ہر وقت کند ذکر تو ہم چوں قدسی
سیدی انت حبیبی و طبیب قلبی
آمد سوئے تو قدسی پئے درماں طلبی
اس باب میں سیکڑوں ہندو محققین، دانشور اور شعراء ہیں، جنھوں نے نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو نہایت باریک بینی سے پڑھا۔ ان کے پیش نظر دیگر بانیان مذاہب اور مصلحین کی زندگیاں بھی رہیں، لیکن وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ روئے زمین پر اگر کوئی کامیاب و پاکباز ہستی ہے، جو دنیائے انسانیت کو نجات دلاسکتی ہے تو وہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
غیر مسلم نعت گو شعراء کے قلبی جذبات محض طبع آزمائی کی خاطر یا ازراہ مصلحت نہیں تھے، بلکہ ان میں الفاظ کی بندش، اوزان و قوافی کی رعایت کے ساتھ غیر معمولی قلبی لگاؤ اور والہانہ عقدیت و محبت کا اظہار ہوتا ہے، جو ان کی قلبی کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں مذہبی رواداری اور بقائے باہم کے علاوہ مذاہب کا اختلاف و امتیاز، اپنی اپنی تہذیب کی حفاظت و محبت مسلم رہی ہے اور کسی نہ کسی درجے میں باہمی کشمکش رہی، اس کے باوصف غیر مسلم شعراء کا مذہب و ملت اور تہذیب و معاشرت کے قید و بند سے آزاد ہوکر کھلے دل سے حضور نبی اکرم ﷺ کی شان اقدس میں نذرانہ عقیدت پیش کرنا قابل صد آفریں ہے۔ غیر مسلم شعراء کے چند منتخب اشعار جو نور احمد میرٹھی کی ۳۳۶ غیر مسلم شعراء کے حالات و نعتیہ کلام پر مشتمل انمول کتاب ’’بہرزماں بہر زباں صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ سے ماخوذ ہیں، درج کئے جا رہے ہیں۔
ہر ایک کا حصہ نہیں نعت نبی جوہر

اللہ جسے بخش دے عرفان محمد
(چندر پرکاش جوہرؔ)
آدمیت کا غرض ساماں مہیا کردیا

اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
(پنڈت ہری چند اخترؔ)
ترے نفس سے ہے دنیا و دیں میں بیداری

بنے ہیں کون و مکاں ایک تیرے دم کے لئے
(درشن سنگھ مہاراج)
عیسیٰ سے ہے بڑھ کر لب گویائے محمدؐ

یوسف سے بڑھ کر رُخِ زیبائے محمدؐ
(جان رابرٹ)
کچھ عشق پیمبرؐ میں نہیں شرط مسلماں

ہے کوثریؔ ہندو بھی طلبگار محمدؐ
(دلورام، کوثریؔ)
مبارک ہو زمانہ کو کہ ختم المرسلیںؐ آیا

سحاب رحم بن کر رحمۃ للعالمیںؐ آیا
(جگن ناتھ آزادؔ)
انسان سے کیا طے ہو رہ نعت پیمبرؐ

چلنا جہاں مشکل ہو فرشتوں کی زباں کا
(راجا چنولال)
خاص بات یہ ہے کہ مغربی مفکرین نے جب اسلامی موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنی تحقیق پیش کی تو کہیں نہ کہیں انکے دل میں پنہاں تعصب کا زہر نکل آیا اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے اسلام کے صاف و شفاف آئینے کو گرد و غبار سے آلودہ کرنے کی فکر میں نظر آتے ہیں۔ ان کے برخلاف برصغیر کے ہندو، کائستھ، سکھ، عیسائی غیر مسلم اردو شعراء کاکمال ہے کہ انھوں نے نہ صرف سیرت طیبہ کا صدق دل سے مطالبہ کیا، بلکہ اظہار عقیدت میں کوئی کمی نہ کی، حتی کہ وہ اسلامی تعلیم و مزاج کو اس حد تک پی گئے تھے کہ نفس اشعار سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کا قائل ایک مسلم ہے یا کوئی غیر مسلم۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ متحدہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی راہ و رسم نے غیر مسلم حضرات کے قلب و دماغ پر اسلام کے انمٹ نقوش چھوڑے تھے، نیز اردو زبان پر اسلامیت کی چھاپ نے بھی اردو داں غیر مسلم شعراء کو اسلام سے قریب کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ غیر مسلم ہندو سکھ شعراء کا نعتیہ کلام ہندوستان کے سارے غیر مسلم اصحاب کو یہ مخلصانہ پیغام دیتا ہے کہ انھوں نے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بانی اسلام ﷺکی بارگاہ میں نہایت مؤدبانہ نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔ ہم اہل اسلام کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان غیر مسلم شعراء کے جذبات عقیدت کو بلالحاظ ہندوستانی سماج میں عام کریں، تاکہ منفی جذبات و احساسات کے بادل چھٹ جائیں اور دنیا سورج کی حقیقی روشنی سے منور و تابناک ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ اردو سے غیر مسلم حضرات کی دلچسپی میں کمی کی بناء اسلام سے دوری بھی بڑھتی جا رہی ہے، جو کہ لمحہ فکر ہے، لہذا ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ غیر مسلم حضرات اردو اور اسلام کی طرف راغب و مائل ہوں۔