فاقہ کشی اور غم و غصہ

   

دل کے ان حوصلوں کا حال نہ پوچھا
جو ترے دامن کرم میں پلے
فاقہ کشی اور غم و غصہ
دنیا میں انسانوں کو اب وباؤں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ ایک تشویشناک خبر ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک دیگر وائرس بھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے ہیں ۔ بعض مذہبی گروپس نے اس وباء کو خدا کا قہر یا عذاب قرار دیا ہے تو سائنسدانوں نے اس کو انسانی غلطیوں کا نام دیا ہے ۔ انسان کو تمام وباؤں سے بچنے کی طاقت دے کر پیدا کیا گیا لیکن انسان کچھ اور ہی کھانا شروع کیا ۔ جانوروں کو اپنی غذا کا حصہ بنایا ۔ حرام چیزیں پسند کی جانے لگی ۔ انسان نے روٹی کی جگہ دوائیاں کھانا شروع کردیں ۔ اس لیے وہ مختلف قسم کے جرائم کے لیے اپنے جسم کو کوڑا دان بنادیا ۔ کورونا وائرس سے خطرناک وباء آنے والے ہیں ۔ دنیا کے متمول ترین شخص بل گیٹس نے یہ اشارہ دیا ہے بلکہ ان کا یہ انتباہ ہے کہ اگر انسانوں نے اپنی طرز زندگی نہیں بدلی تو انہیں مزید خطرناک وباؤں کا شکار ہونا پڑے گا ۔ آخر یہ وبا کیا ہے ؟ فطرت سے بغاوت کا نتیجہ ہے یا انسانوں کی حماقت کا انجام ۔ کیوں کہ کورونا وائرس کے پھوٹ پڑنے سے چند ایک ہفتے قبل یہ خبر آئی تھی کہ امریکہ میں 2 یا 3 سائنسدانوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ یہ گرفتاریاں کیوں ہوئیں اور گرفتار شدہ سائنسدانوں کی غلطیاں کیا تھیں ، یہ غور طلب ہے ۔ ان سائنسدانوں کی گرفتاری کے چند دنوں بعد ہی چین کے وہان شہر میں کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑنے کی اطلاعات عام ہوئیں ۔ اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اس وباء نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور امریکہ سب سے زیادہ متاثر ملک ہے ۔ اب وہاں حالات یہ ہیں کہ ہر روز ہزاروں افراد کورونا کا لقمہ بن رہے ہیں ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں فاقہ کشی یا بھوک سے اموات کم ہوتی ہیں لیکن وباؤں نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا ہے ۔ ان ملکوں میں جہاں غربت ہے یا ایسے ممالک جو ترقی پذیر کہلاتے ہیں جیسے ہندوستان میں وباؤں کا سب سے زیادہ برا اثر ملک کے غریب عوام پر ہوتا ہے ۔ گذشتہ 21 دن سے لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستان کے غریب عوام کے چولھے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں ۔ بے سہارا بے یار و مددگار ورکرس فاقہ کشی کا شکار ہو کر تڑپ اٹھے ہیں ۔ ہندوستان کی طرح کئی ملکوں کو کورونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والے بھوک کے مسائل سے بھی نمٹنا ہے ۔ ہندوستان کو ایک طرف کورونا وائرس کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے تو اس کے ساتھ معیشت کی تباہی سے بھی نمٹنا ہے ۔ اسی لیے وزیراعظم مودی نے ریاستی چیف منسٹروں سے ویڈیو کانفرنس کے دوران اپنی حکومت کی پالیسیوں اور لاک ڈاؤن کی برقراری کا جائزہ لیا ۔ وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کے دوران ’ جان ہے تو جہان ‘ کا نعرہ دیا تھا ۔ اب انہوں نے ’جان بھی جہان بھی ‘ کو اہم قرار دیا ہے گویا اب حکومت کو عوام کی زندگی کے تحفظ کے ساتھ معیشت کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہے ۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کا زیادہ تباہ کن اثر نہیں ہوا ہے ۔ یہ ملک ہولناک ، تباہ کاریوں سے بڑی حد تک محفوظ ہے ۔ لاک ڈاؤن کے بعد اموات اور متاثرین کی تعداد کو کم کرنے میں مدد ملی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی معاشی ابتری ، غریبوں کی روٹی روزی چھین جانے اور فاقہ کشی نے صورتحال کو نازک بنادیا ہے۔ حال ہی میں گجرات کے شہر سورت میں روزانہ کی روزی حاصل کرنے والے سینکڑوں مزدوروں کو آجرین سے پیسہ اور کھانا نہیں ملا تو یہ لوگ سڑک پر نکل آئے اور ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ ایسے ہزاروں مزدور اپنے گھروں سے دور دیگر مقامات پر روزی کے لیے ٹہرے ہوئے تھے اب لاک ڈاؤن کے بعد یہ لوگ 21 دن سے پھنسے ہوئے ہیں ۔ مزید 14 دن کے لاک ڈاؤن کے اعلان سے ان کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ پنجاب کے پٹیالہ شہر میں ایک گروہ نے پولیس پر حملہ کر کے اس کے ہاتھ کاٹ دئیے ۔ یہ واقعات تشویشناک ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہر غریب کو کھانا فراہم کرنے کے صرف تشہیری اعلانات سے گریز کرتے ہوئے عملی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر ریاست کے ہر شہر اور دیہات میں بلدی عملہ کو متحرک کر کے ان سے غریب تک کھانا پہونچانے کا کام لیا جاسکتا ہے کیوں کہ بلدی عملہ ہی شہر ، ٹاون اور گاؤں کی گلی کوچوں سے واقف رہتا ہے ۔ غریبوں کے بارے میں مناسب نشاندہی کرسکتا ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ سارے ہندوستان میں بلدی اداروں سے وابستہ افراد کی خدمات حاصل نہیں کی جارہی ہیں ۔ حیدرآباد اور تلنگانہ میں بلدی اداروں کی جانب سے اناپورنا سنٹرس قائم کیے گئے جو بھوکے انسانوں کا پیٹ بھرنے کا اچھا کام کررہے ہیں ۔ ان سنٹرس کو ہر گلی کوچے میں قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس خطوط پر سارے ملک میں سنٹرس قائم کئے جائیں تو شائد غریب عوام کو مفت کھانا فراہم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔