فرانس میں ٹیچر کا قتل

   

آج وہ کاتبِ تقدیر بنے بیٹھے ہیں
جن کے سینے میں گدازِ غمِ فردا بھی نہیں
فرانس میں ٹیچر کا قتل
فرانس میں یا دنیا کے کسی بھی حصہ میں گستاخانہ واقعات رونما ہونا ایک تکلیف دہ بات ہے اور ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیے جاتے بلکہ ہر ایک دل آزار واقعہ کے بعد دوسری دل آزاری کا واقعہ رونما ہوتا ہے ۔ دانستہ طور پر کوئی فرد کسی دوسرے مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہونچائے تو اس حرکت کی شدید مذمت ہونے کے ساتھ خاطیوں کے خلاف کارروائی کی جائے تو دل آزاری کے واقعات میں کمی آئے گی جس طرح کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے کا عمل ناپسندیدہ ہوتا ہے اسی طرح دل آزاری یا گستاخانہ حرکت کے مرتکب افراد کو سزا دینے یا ان کا قتل کردینا بھی ناقابل قبول عمل ہے ۔ فرانس میں ایک ٹیچر کا سر کاٹ کر کے قتل کردیا گیا ۔ خاتون ٹیچر گستاخانہ کارٹون دکھا کر اپنے طلباء کو تاریخ کا غلط سبق پڑھا رہی تھی ۔ ٹیچر کی یہ نفرت انگیز حرکت اپنی جگہ قابل مذمت ہے لیکن اس کا قتل کرنے والے چیچنیا کے لڑکے کی کارروائی پر آج ساری دنیا واویلا مچا رہی ہے ۔ ہسٹری کی ٹیچر اپنے طلباء کو دنیا کی تاریخ پڑھانے کے درمیان کئی مذہب کے خلاف نفرت کو ہوا دے تو اس کا نوٹ لینا ضروری ہے ۔ مگر مہذب دنیا کے لوگوں نے اصول و ضوابط کا جو پیمانہ مقرر کیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ آج نفرت کے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قتل کے معاملے افسوس ناک ہیں ۔ کسی بھی فرد یا تنظیم کو گستاخانہ حرکت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حق نہیں پہونچتا ۔ اس واقعہ کی مذمت کرنے والوں میں آج سارا عالم عرب سامنے آیا ہے ۔ ٹیچر کے قتل کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے سعودی عرب نے عرب اور مسلم دنیا کی قیادت کرتے ہوئے فرانس کی ٹیچر کے دہشت گردانہ قتل کی مذمت کی ہے ۔ مذہب اسلام میں تشدد اَنا پسندی اور دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ ساری مسلم دنیا بھی ان کو مسترد کرتی ہے ۔ اسی طرح ہر مذہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہئے ۔ فرانس کے عوام کے ساتھ اظہار یگانگت کرتے ہوئے سعودی عرب نے مقتولہ ٹیچر کے ارکان خاندان سے اظہار تعزیت کیا ۔ تمام مذاہب میں تشدد اور دہشت گردی کی کارروائیاں ایک جرم ہیں ۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے ۔ انتہا پسندانہ نظریات کو شکست دینا وقت کا تقاضہ سمجھا جارہا ہے ۔ اس طرح کے جرائم کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے ۔ قاہرہ کی عظیم درس گاہ الازہر نے بھی قتل کو جرم قرار دیا کیوں کہ ایسی حرکتوں کو منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ فرانس کی ٹیچر کی کہانی اس قتل کے اسباب کو بیان کرتی ہے ۔ ٹیچر نے نادانی یا قصداً اپنے طلباء کے ایک برہنہ شخص کی شبیہ دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کا پیغمبر تھا ۔ اس ٹیچر کی گستاخانہ حرکتوں کی ویڈیو جب وائرل ہوئی تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچی ۔ ٹیچر نے کلاس میں فوٹو دکھانے سے پہلے مسلم بچوں کو اپنا ہاتھ اٹھانے اور اس کے بعد کلاس سے باہر جانے کے لیے کہا ۔ اس سے ٹیچر کے مقاصد واضح ہوتے ہیں یہ ٹیچر بچوں کو کیا پیغام دینا چاہتی تھی ۔ اسکول انتظامیہ کو اس بات کا علم تھا کہ گستاخ ٹیچر نے طلباء کے سامنے گستاخانہ کارٹون پر بات کرنا شروع کی تھی ۔ ٹیچر کی ان حرکتوں سے کئی والدین نے اپنے غم و غصہ کا بھی اظہار کیا تھا ۔ اگر اسکول انتظامیہ اس بات کا سخت نوٹ لیتا اور ٹیچر کو گستاخانہ حرکتوں سے باز آنے کے لیے پابند کرتا تو اس کے سنگین نتائج سامنے نہیں آتے اور مذہبی نفرت کا افسوسناک انجام نہیں ہوتا ۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں گستاخانہ واقعات ہورہے ہیں انہیں فوری روکنا متعلقہ نظم و نسق کی ذمہ داری ہے ۔ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر نہ کسی کو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اسلام کے ماننے والوں کو گھناونے جرم کے لیے قدم اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔۔