فقیہ اور مجتہد

   

مرسل : ابوزہیر نظامی

شیخ الاسلام عارف باﷲ حضرت امام محمد انوار اﷲ فاروقی فضیلت جنگ رحمۃ اﷲ علیہ بانی جامعہ نظامیہ اپنی معرکۃ الآراء تصنیف حقیقۃ الفقہ میں عنوان بنام ’’فقیہ اور مجتہد‘‘ کے تحت بڑی عمدہ تحریر فرماتے ہیں ملاحظہ ہو: غرض اس قسم کے مختلف اسباب سے ایسے علماء کی ضرورت ہوئی کہ علاوہ آیات و احادیث یاد رکھنے کی ایسی بھی طبیعت رکھتے ہیں کہ شارع کے مقصود کو قرائن اور جودت طبیعت سے معلوم کرسکیں‘ انہیں کو فقیہ اور مجتہد کہتے ہیں اور اس قسم کے علماء بہت کم ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس حدیث شریف سے ظاہر ہے ’’ عن معاویۃ رضی اﷲ عنہ قال سمعت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم یقول من یرد اﷲ بہ خیرا یفقہہ فی الدین و انما انا قاسم واﷲ یعطی رواہ البخاری‘‘ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ خدائے تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اُس کو دین میں سمجھ دیتا ہے ۔ میں صرف قاسم ہوں اور دینے والا اللہ ہے ۔ قسطلانیؒ نے لکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ جس کو جیسی فہم دینا چاہتا ہے دیتا ہے ۔ یعنی صحابہ احادیث سنتے تھے اور اُن سے صرف ظاہری معنی سمجھ لیتے تھے اور بعض بہتیرے مسائل اُن سے استنباط کرتے تھے ۔ اسی طرح ما بعد کے قرون کے علماء کا حال رہا ہے انتہیٰ ۔
قسطلانیؒ نے یہ مضمون اس حدیث شریف سے لیا ہے ۔ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ خدا ئے تعالیٰ تروتازہ رکھے اُس بندہ کو جس نے میرے اقوال سنے اور یاد رکھ کر اُن لوگوں کو پہونچایا جنہوں نے سنا نہیں کیونکہ بہت روایت کرنے والے سمجھدار نہیں ہوتے اور بعض سمجھدار تو ہوتے ہیں مگر جن کو وہ پہنچاتے ہیں اُن میں ایسے بھی لوگ ہوں گے جو اُن سے افقہ ہوں اور دارمی کی روایت میں ہے کہ فرب حامل فقہ ولا فقہ لہ جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر روایت کرنے والوں کو یعنی محدثین کو سمجھنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ (کنزالعمال)
محدثین و فقہاء کے فرائضِ منصبی: اس سے مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر ہے کہ محدثین کا اتنا ہی کام ہے کہ روایتیں فقہاء کو پہونچا دیں تاکہ وہ خوض و فکر کر کے مفید مفید مضامین نکالیں جن سے راویوں کی سمجھ قاصر ہو ‘کیونکہ جمیع مالہ و ماعلیہ کی رعایت کرنی ہر راوی کا کام نہیں جیساکہ اِس روایت سے ظاہر ہے جو کنز العمال میں ہے ’’ ائمہ اہل بیت کی اسناد سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم سمجھ حاصل کرو روایت کرنے والوں میں مت ہو ۔ غرضکہ متعدد روایتوں سے ثابت ہے کہ مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف روایت حدیث نہیں بلکہ احادیث میں غور کرنا اور فقیہوں کو پہونچانا ہے ‘جن کا کام یہ ہے کہ جیسی جیسی ضرورتیں پیش آئیں ، وہ ہر امر کی رعایت کر کے اُن احادیث سے استنباط مسائل کیا کریں‘‘ ۔
{اقتباس : حقیقۃ الفقہ حصہ اول ، ص ۱۴، ۱۵}
zubairhashmi7@gmail.com