فلسطینی اسپتال اسرائیل کا نشانہ، حماس صرف بہانہ

   

روش کمار

غزہ کے اسپتال الشفاء میں اسرائیلی فوج نے گھس کر تباہی و بربادی مچائی ۔ الجزیرہ کے بشمول کئی خبر رساں اداروں اور ایجنسیوں نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج ایک ایک کمرے میں گئی ، میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹروں سے پوچھ تاچھ بھی کی تاکہ اس بات کو ثابت کیا جائے کہ وہاں حماس کے جنگجو پناہ لئے ہوئے ہیں اور ان لوگوں نے وہاں تہہ خانہ اور سرنگیں تعمیر کرلی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فورسس نے اسپتال میں گھس کر الیکٹرانک چیک پوائنٹس لگادیئے ہیں، اس سے گزر کر سبھی کو پوچھ تاچھ کیلئے جانا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹروں ، ارکان عملہ اور دوسروں سے باری باری پوچھ تاچھ کی گئی ۔ اسپتال کے دمہ داروں کا کہنا ہے کہ اسپتال کے اندر مریض چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں۔ بھیانک صورتحال ہے ۔ ہم اب مریضوں کو نہیں بچاسکتے۔ الشفاء اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے خبر رساں ادارہ رائٹرس سے کہا ہے کہ اسپتال کے باہر اسرائیلی فورس نے جس طرح تباہی مچائی اس طرح اسپتال میں بھی تباہی مچائی ہے ۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب اسرائیلی فورسس نے اسپتال کے باہر گولیاں چلاتے ہوئے وہاں موجود ڈاکٹروں ، ارکان عملہ ، مریضوں اور پناہ لئے ہوئے لوگوں کو دہشت زدہ کردیا تھا (واضح رہے کہ اسرائیلی فورس کی فائرنگ اور بمباری کے نتیجہ میں 179 فلسطینی شہداء کو جن میں تقریباً 40 بچے بھی شامل ہیں۔ ہاسپٹل کے احاطہ میں اجتماعی قبر تیار کر کے دفن کردیا گیا) ۔ حد تو یہ ہے کہ جنگ کے چالیسویں دن تک بھی اسرائیلی فورسس اور شوٹرس نے اسپتال کے باہر آنے والے کسی بھی فرد پر گولیاں چلانے سے گریز نہیں کر رہے تھے ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی فورس کی الشفاء اسپتال پر وحشیانہ کارروائی کے باوجود اسپتال میں سے اسرائیلی فورس پر کوئی جوابی حملہ نہیں ہوا ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ الشفاء اسپتال میں حماس کے فوجی ونگ القسام بریگیڈ کے جنگجو موجود نہیں ہیں۔ اسپتال کا اس قدر حال برا ہے کہ کسی کے پاس کچھ ہے بھی نہیں۔ میڈیا میں سرنگوں کے بارے میں خبریں چلائی جارہی ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔ الشفاء اسپتال کی داستاں اپنے آپ ہی دفن ہوگئی ۔ تاریخ سے آپ کیا امید کریں گے ۔ ہم کوئی نیوز چیانل نہیں ہمارے پاس اسپتال کی حالت زار بتانے والی تصاویر فوری نہیں آتی بلکہ مل ہی نہیں پاتی لیکن کیا صرف اسی وجہ سے الشفاء کا حال نہیں بتایا جائے گا ؟ مجھے لگتا ہے کہ الشفاء کا حال تب بھی بتایا جانا چاہئے اور آپ کو سننا چاہئے جب اسپتال کے اندر کا حال بتانے والی تصاویر نہ ہوں۔ ان تصویروں پر اب اسرائیل کا قبصہ ہوگا ۔ ان تصویروں میں الشفاء نہیں اسرائیل دکھائی دے گا ۔ زخمیوں کی چیخ پکار نہیں اسرائیل کی انسانیت دکھائی دے گی ۔ ممکن ہے آپ اس اسپتال میں رکھے گئے لوگوں سے ہمدردی نہ رکھتے ہوں مگر خود کے ساتھ تو رکھتے ہی ہوں گے ۔ یہ کہانی آپ کو اس لئے سننی چاہئے کہ ایک دن یہ واقعہ دنیا کے دوسرے حصہ میں بھی دہرایا جائے گا ۔ ہٹلر کی کارروائیاں آج بھی دہرائی جارہی ہیں ، خود اسرائیل کا ٹوئیٹر ہینڈل ہٹلر کی باتوں اس کی کارروائیوں کو کہانیوں کی شکل میں دکھا رہا ہے جس میں لکھا ہے کہ یہودیوں سے نفرت کرنا جان لیوا ہے ۔ آئی ڈی ایف نے جب غزہ میں دھاوے کئے اس وقت غزہ کے ایک گھر میں ہٹلر کی کتاب ملی ہے ۔ اس جگہ کا استعمال حماس اپنے اڈہ کی شکل میں کر رہا ہے ۔ ایسا اسرائیل کا دعویٰ ہے ۔ عربی میں ہٹلر کی زندگی پر لکھی گئی یہ کتاب ہے ۔ اسرائیل کے ٹوئیٹر ہینڈل پر لکھا ہے کہ کتاب کے ساتھ حماس کے جنگجوؤں نے نوٹس بھی بناکر رکھے تھے ۔ یہ لفظوں سے شروع ہوتا ہے اور ختم ہوتا ہے ، سڑکوں پر یہودی خون سے لیکن اسرائیل کے بیانات میں وہی الفاظ آرہے ہیں جو ہٹلر یہودیوں کیلئے استعمال کرتا تھا ۔ دہشت گردی کا شکار لوگوں میں بھی اسی طرح کی دہشت کی خواہش پیدا ہوتی ہوگی تب ہی اسرائیل کے رہنما اور فوجی ہٹلر کا نام لینے سے گریز نہیں کرتے جو ان کا کھل نائک تھا، اب وہی ان کا ہیرو ہے ۔ اسی حکومت کے لوگ غزہ کے لوگوں کیلئے اندھیرے کی اولاد ، انسان نما جانور جیسے الفاظ کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایسے ہی الفاظ کا استعمال نازی جرمن میں یہودیوں کے خلاف کیا جاتا تھا ۔ موت کا اس سے بھیانک چہرہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس اسپتال کو گھیر لیا جائے جہاں کسی طرح زندہ بچے لوگ سانس بچا لینے کیلئے جدوجہد کر رہے ہوں اور انسانیت کا اس سے بھیانک چہرہ نہیں ہوسکتا کہ اس اسپتال کو چاروں طرف سے گھیر لینے کے بعد اسرائیل کہہ رہا ہو کہ ہم جو انکیو بیئر اور بچوں کیلئے خوراک دوائیں وغیرہ روانہ کی تھیں، وہ اسپتال میں پہنچ گئیں ہیں ۔ عربی زبان بولنے والے ہمارے فوجی اور میڈیکل ٹیم یہ سب یقینی بنارہے ہیں کہ ضرورت مندوں تک میڈیکل سپلائی ٹھیک سے پہنچ جائے ۔ الشفاء ہاسپٹل کو اسرائیل کی فوج نے گھیر لیا ہے ۔ IDF نے کہا ہے کہ الشفاء اسپتال کے اندر ہماری کارروائی جاری ہے ۔ ہم صرف حماس کو نشانہ بنارہے ہیں ۔ انسانیت کے ایک اور بڑے پجاری امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے 13 نومبر کو کہا کہ اسپتالوں پر زیادہ سنگین کارروائی نہیں ہوگی ، باقی علاقوں کے مقابلہ اتنی سخت کارروائی نہیں ہوگی ، ایسی انسانیت جذبہ ہمدردی اور انسانیت نوازی کی مثال آپ کو کہیں نہیں ملے گی ۔ اسی اسپتال میں شریک لوگ کون ہیں ؟ اس اسپتال کے کیمپس میں پناہ لینے والے کون ہیں؟ ظاہر ہیں وہی ہیں جن کے گھروں پر اسرائیل نے بم برسائے ہیں۔ 23 لاکھ میں سے 17 لاکھ سے زائد آبادی بے گھر ہوگئی ہے ۔ ان کے گھر مٹی میں ملادیئے گئے ہیں ۔ وہ دوبارہ گھروں میں واپس نہیں ہوسکتے ۔ لگاتار اسپتالوں پر حملے ہوتے رہے ۔ اسپتال بند ہوتے رہے، اس کے بعد بھی جوبائیڈن کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ اسپتالوں پر کم شدت کی کارروائی ہوگی ۔ الشفاء اسپتال کے ایک ذمہ دار محمد ابو سلمیہ نے اے ایف پی نیوز ایجنسی سے کہا ہے کہ 179 نعشوں کو مردہ خانہ سے نکال کر اسپتال کے احاطہ میں ہی دفنایا گیا ہے کہ کیونکہ بجلی کی سربراہی نہیں تھی ۔ الشفاء کے جنریٹر کا ایندھن ختم ہوجانے کے بعد سے آئی سی یو اور انتہائی نگہداشت کے دوسرے شعبوں کے 29 مریضوں کی موت ہوچکی ہے ۔ (اب وہ تعداد 40 سے تجاوز کرگئی ہے ) ۔ ہمارے پاس الشفاء اسپتال کی تازہ تصاویر نہیں ہے ۔ ہاں گزشتہ ایک ماہ پرانی یہ تصاویر دیکھنے سے حالات کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے ۔ ایسے میں کیا امریکی صدر اور جرمنی کے چانسلر کو اندازہ نہیں ہوا ہوگا کہ اس اسپتال پر کس طرح سے حملے کئے جارہے ہیں ۔ چاروں طرف سے بموں کی بارش کے درمیان ان ڈاکٹروں نے مریضوں کا کس طرح علاج کیا اور اپنی جانیں گنوادی۔ اسٹائپر اور ڈرونس کے حملوں کے درمیان اس اسپتال میں فی الوقت 650 مریض شریک ہیں اور 5000 سے لے کر 7000 پناہ گزیں بھی موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازہ کے مطابق کم سے کم 2300 لوگ اسپتال کے اندر ہیں۔ اور گولی باری کی صورت میں نکل نہیں پارہے ہیں ۔ WHO کے سربراہ نے کہہ دیا کہ الشفاء اب اسپتال کی طرح کام نہیں کر رہا ہے ۔ اسپتال کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے الشفاء کو تباہ کردیا ہے ۔ ڈاکٹر جان کی بازی لگاکر مریضوں کے پاس جارہے ہیں۔ صحافی کہہ رہے ہیں کہ اسپتال میں موجود لوگوں سے اسرائیل نے کہہ دیا ہے کہ ہاتھ اوپر اٹھائے باہر نکل آئیں۔ بہر حال الشفاء پر اسرائیل حملوں پر حملے کئے جارہا تھا اور عالمی برادری اسی طرح خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی جس طرح گزشتہ 41-42 دنوں سے بنی ہوئی ہے۔