فلسطینی تائید و حمایت کے حقدار لیکن …

   

روش کمار
اسرائیل ۔ فلسطین جنگ کے ذریعہ غزہ کو تہس نہس کیا جارہا ہے ۔ فلسطین مسلسل اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں وہاں کے دلخراش مناظر نے انسانیت نوازوں کو بے چین کر رکھا ہے لیکن افسوس کہ فلسطین کو دنیا بھر کی تائید و حمایت کی بجائے صرف زبانی ہمدردیاں مل رہی ہیں اس کے برعکس اسرائیل کو دنیا بھر کا ساتھ مل رہا ہے ۔ غزہ کو اب تک دوا ، پانی نہیں ملا مگر اسرائیل کو جنگی ساز و سامان سے لیکر اربوں ڈالرس کی امداد مل گئی ۔ دی انڈی پنڈنٹ اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ غزہ کا بہت بُرا حال ہے وہاں ڈاکٹرس بناء انستھشیا زخمیوں کے آپریشن کررہے ہیں یعنی انہیں بے ہوش کئے بناء سرجریز کی جارہی ہیں یہ کتنا بھیانک ہوگا کہ بیہوش کئے بناء مریض کا آپریشن کیا جاتا ہے تو اس پر کیا گذرتی ہوگی ؟ ڈاکٹرس پر گیا گزرتی ہوگی یہ سوچ کر ہی سارا وجود کانپ جاتا ہے کئی سو سال قدیم طریقہ سے علاج ہورہا ہے ۔ انڈی پنڈنٹ اخبار نے یہ بھی لکھا ہیکہ غزہ میں ہر مریض کیلئے دوا دستیاب نہیں ہے ۔ کون زیادہ تکلیف میں ہے اب اس بنیاد پر دوا دی جارہی ہے ۔ آج کی دنیا پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ مہذب ہوئی ہے یا بدتر اس کا حساب لگانے کی صلاحیت بھی دنیا نے کھودی ہے ۔ دواؤں کی سپلائی روک کر اسپتالوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ دواؤں کے پہنچنے سے پہلے ہی امریکی بحری بیڑہ دیوہیکل جنگی جہاز اسرائیل پہنچ گیا جس میں 5000 سپاہیوں کا اسٹاف ہے ۔ دوسرا بحری بیڑہ بھی اسرائیل پہنچ رہا ہے ۔ اسرائیل کے آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم کیلئے امریکہ میں آرڈر پورے کئے جارہے ہیں چھوٹے بم بھی بھیجے جارہے ہیں ۔ امریکی فضائیہ کے طیارے بھی مشرق وسطی میں الگ الگ اڈوں پر تعینات کردیئے گئے ہیں ہر طرف سے اسرائیل کو لیس کر کے غزہ کو پوری طرح گھیر لیا گیا ہے اسرائیل کیلئے بھی دیکھیں تو حملہ نہیں رکا ۔ حماس اور حزب اللہ کا حملہ جاری ہے ۔ جنگ بندی اور یرغالیوں کو آزاد کرانے کی کوشیش سنجیدگی کے ساتھ نظر نہیں آرہی ہیں ۔ اسرائیلی فوج نے نئے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جس میں بتایا گیا ہیکہ حماس نے 203 اسرائیلیوں کو یرغمالی بنایا ہے یہ بھی خبر آئی ہے کہ امریکہ اسرائیل کو 10 ارب ڈالرس اور غزہ کو 100 ملین ڈالرس کی مدد دے گا ۔ بڑے بڑے رہنما اسرائیل کا دورہ کررہے ہیں ان میں سے کسی کو غزہ کا دورہ کرنے کی فکر نہیں ہے ۔ غزہ پر جو گذر رہی ہے اس پر ہمدردی جتانے کے باوجود بھی جوبائیڈن نے غزہ کا دورہ کرنے سے گریز کیا ۔ اردن میں فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس سے بائیڈن کی ملاقات ہونے والی تھی مگر اسپتال پر حملہ کے بعد یہ ملاقات نہیں ہوئی ۔ جرمن چانسلر نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا ۔ غزہ کا دورہ نہیں کیا ۔ برطانوی وزیراعظم رشی سنک اسرائیل گئے لیکن غزہ نہیں گئے یہ اس وقت ہورہا ہے جبکہ امریکی صدر یہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کا ایک بڑا حصہ حماس نہیں ہے اور حماس سارے فلسطینیوں کی نمائندگی نہیں کرتی تب یہ رہنما غزہ کیوں نہیں گئے ؟ اسرائیل خود حماس اور فلسطینی میں فرق نہیں کرتا ایسے بہت سے لوگ اسی بنیاد پر فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے ہیں کہ حماس نے غزہ میں الیکشن جیتا تھا اس کے بعد بھی بائیڈن یہ بات کہہ رہے ہیں مگر ریلیف کیلئے اسرائیل کو منانے کے بعد بھی بائیڈن نے جنگ بندی کی بات نہیں کی خود اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد پر امریکہ نے ویٹوکر دیا جس سے صاف ہیکہ امریکہ تمام نصیحتوں کے بعد بھی اسرائیل کو ہر قسم کی چھوٹ دینا چاہتا ہے ۔ بائیڈن کا خطاب میںاسرائیل کی طرف زیادہ جھکا ہوا تھا وہ اپنے خطاب میں سب کچھ اسرائیل پر چھوڑتے نظر آئے ۔ امریکہ کی طرف ہتھیار سے لیکر رقمی مدد کا وعدہ کرتے رہے اور نصیحت دیتے رہے کہ اسرائیل کوحالت غصہ میں غلطی نہیں کرنی چاہئے جس کا ارتکاب امریکہ نے 9/11 کے وقت کیا ۔ ان باتوں کے علاوہ ان کے خطاب میں اسرائیل کو ہی مضبوط امریکی حمایت دکھائی دیتی ہے ۔ اس لئے ان پر تنقیدیں کی جارہی ہیں ۔ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے یہاں کے لوگوں کو گھیر گھیر کر بمباری میں مارا جارہا ہے ان کیلئے ہولوکاسٹ جیسا کوئی نقط کسی کو دستیاب نہیں ہوسکا ۔ فلسطینیوں کے پاس دس کیلئے ایک لفظ ہے نکیہ جس کا استعمال صرف وہی کررہے ہیں حیرت اس بات پر ہیکہ جوبائیڈن حماس کے حملہ کا موازنہ ہولوکاسٹ سے کررہے ہیں مگر غزہ کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کا موازنہ ہولوکاسٹ سے نہیں کررہے ہیں اس فرق کو ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ اب تو یہ لڑائی غزہ سے نکل کر مغربی کنارہ میں پہنچ گئی ہے ۔ وہاں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں چار لوگوں کی موت ہوگئی ہے اور کئی لوگ گرفتار ہوئے ہیں یہ لڑائی ہر دن بڑی ہوتی جارہی ہے دنیا تاک رہی ہے۔ ایک ملک ہے کولمبیا اس کے صد رنے کہا ہیکہ اسرائیل غزہ کے ساتھ ہولوکاسٹ کی یادوں کو دہرا رہا ہے ۔ اسرائیل اس پر برہم ہوگیا کہ کولمبیا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی بات کہی ہے مگر کولمبیا کے صدر نے حماس کی مذمت نہیں کی ۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ کولمبیا کو سیکوری اکسپورٹس روک رہا ہے ۔ اسپین نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ونیزویلا کے صدر نے کہا ہیکہ ہم فلسطین کیلئے 30 ٹن سے زیادہ انسانی امداد بھیجیں گے فلسطینی لوگوں تک راست امداد پہنچتی رہے اس کیلئے راستہ بھی بنائیں گے ۔ جنوبی آفریقہ آفریقی ملکوں میں اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ملک ہے اس کے صدر نے اپنے پارٹی ارکان کے ساتھ حال ہی میں ایک بیان دیا کہ ان کا ملک فلسطین کے لوگوں کے ساتھ اظہار یگانگت کرتا ہے ۔
ہم مشرق وسطی میں واقعات کو لیکر فکر مند ہیں ہمیں اس بات کی پوری سمجھ ہے کہ فلسطینی عوام نے کیسے اس معاملہ کو اُٹھایا ہے ایک اور آفریقی ملک الجیریا نے فلسطین کی تائید میں اسرائیل کی مذمت کی ہے ۔ برازیل اس وقت اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا سربراہ ہے ۔ صدر لولا جنگ بندی کی مانگ کررہے ہیں اور اسرائیل غزہ کے بچوں اور خواتین کو مصر جانے کا راستہ دے ، انسانی امداد پہنچانے کیلئے ان کا ملک ترکیہ سے بات کررہے ہیں ۔ آفریقی ملکوں کی یونین کو جب دہلی G20 میں شامل کیا گیا تب اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا گیا اب ان ملکوں کی رائے پر کوئی چرچا نہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آفریقہ ملکوں کی میڈیا اور بین الاقوامی بحث میں ہماری کیا حیثیت رہ گئی ہے ۔ برکس ملکوں میں جنوبی آفریقہ ، چین اور برازیل نے فلسطین کی بات کی ہے اس کی حمایت کی ہے ۔ برازیل کے نمائندوں نے ہی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد تیار کی جسے امریکہ نے ویٹو کردیا ۔ بھارت نے ابھی تک اپنی سرکاری رائے کو تحریری طور پر جاری نہیں کیا ہے ۔ بائیڈن کے دورہ سے ایک ہی نتیجہ نکلا ہے اسرائیل نے کہا ہیکہ وہ مصر کے راستے انسانی امداد نہیں روکے گا شرط یہ کہ امداد حماس کے ہاتھ نہ لگے ۔ بائیڈن نے کہا کہ مصر بھی انسانی امداد کیلئے راستہ دینے سے اتفاق کرلیا ہے ۔ اسرائیل حملہ میں جن سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے اس کی مرمت مصر کرے گا اور مصر نے سڑکوں کی درستگی کیلئے اپنی مشینیں روانہ کردی ہیں ۔ اسرائیل نے اپنے بیان میں غذائی اشیاء ، ادویات اور پانی کی بات کہی ہے ۔ ایندھن کی نہیں جو اسپتالوں کے جنریٹرس کیلئے بہت ضروری ہے ۔ سوال یہ ہیکہ آیا 23 لاکھ آبادی کیلئے 20-30 ٹرکس کافی ہوں گے جس پر اقوام متحدہ کی ایجسنیوں نے کئی سوال اُٹھائے ۔ یو این ایڈ نے سلامتی کونسل کو جانکاری دی ہیکہ ہر دن غزہ میں 100 ٹرکس بھیجے جانے کی ضرورت ہے ۔ دوسری طرف اسرائیل نے کہا ہیکہ اگر حماس نے ان ٹرکوں کو روکا تو امداد روک دی جائے گی امدادی سامان صرف عام لوگوں تک پہنچنا چاہئے۔ غزہ میں لوگ پانی کو ترس رہے ہیں اقوام متحدہ کی مدد کرنے والی ایجنسی نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں ایک آدمی کو تمام ضروریات کیلئے دن بھر ایک لیٹر پانی دیا جارہا ہے جبکہ عالمی قوانین کے مطابق ایک آدمی کو ایک دن میں کم از کم پندرہ لیٹر پانی ملنا چاہئے ۔ غزہ میں ایک دن میں ایک آدمی کو ایک لیٹر پانی تو دیا جارہا ہے لیکن وہ پانی بھی سب لوگوں کو نہیں مل پارہا ہے جو لوگ قسمت والے ہیں انہیں ہی یہ پانی مل رہا ہے ۔ آلودہ پانی اور سمندری پانی بھی لوگوں کی جانب سے استعمال کئے جانے کی خبریں ہیں ۔ بائیڈن کی اپیل پر اسرائیل نے کہدیا ہیکہ ہم مصر سے غزہ پہنچنے والی امداد کو نہیں روکیں گے ۔ اس پر یرغمالی بنائے گئے لوگوں میں غصہ ہے ۔ ایک اسرائیلی اخبار میں خبر شائع ہوئی ہے کہ یرغمالیوں کے خاندانوں نے کہا ہیکہ غزہ کو امداد بند کرو نہیں تو ہم اپنا احتجاج بڑھائیں گے ان خاندانوں کی تنظیم کا کہنا ہیکہ حکومت ایسا کر کے ہمیں اُکسارہی ہے ۔ سوال یہ ہیکہ مصر کی سرحد سے کتنے ٹرکس سامان لے کر جارہے ہیں ۔ کتنے دنوں تک یہ ٹرکس امداد لیکر غزہ میں جاتے رہیں گے ، سرحد کتنی دنوں تک کھلی رہیں گی کیا تب تک جنگ بندی ہوگی اس کے بعد شروع ہوگی اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ۔ غزہ میں 600 امریکی باشندے ہیں ان کے وہاں سے نکلتے ہی غزہ پر کس طرح کا حملہ ہوگا یہ بھی ایک سوال ہے ۔ بائیڈن کی یاترا سے اسکولوں پناہ گزیں کیمپوں ، اسپتالوں اور اقوام متحدہ کی امدادی تنظیموںکیلئے الگ سے کوئی گیارنٹی کی بات نہیں ہے اس درمیان غزہ کے اسپتال پر راکٹ سے حملہ کس نے کیا اسے لیکر تنازعہ جاری ہے ۔ اسرائیل نے اسلامی جہاد پر الزام عائد کیا جبکہ امریکہ کا ایک ایکسپرٹ کہتا ہے کہ یہ حملہ امریکی ہتھیار سے اسرائیل نے ہی کیا ہے ۔ بہرحال اسرائیل کا ایک اخبار HAARETZ نتن یاہو کو مجرم قرار دے رہا ہے ۔