فلسطینی مظلومیت، آخر کب تک؟

   

ڈاکٹر حسن الدین صدیقی
دنیا جانتی ہے کہ فلسطینی غزہ کی پٹی 23 لاکھ نفوس کی بستی گذشتہ 16 سال سے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنی رہی ہے۔ یہ اسرائیلی محصورہ تنگ نامی آخر کب تک جبر و قہر کی علامت بنی رہے گی۔ ایک نہ ایک دن تو اس قید و بند کو ٹوٹنا ہی تھا، سو وہ گھڑی 7 اکتوبر کو اچانک آن پڑی کہ ساری دنیا ششدر و حیران رہ گئی۔ اس لئے بھی کہ اسرائیل کے نا قابل تسخیر ہونے کا سحر ٹوٹا، لیکن اس کے ردعمل کے طور پر اپنے دفاع کے بہانے جاری انسانیت سوز ظلم اپنی انتہا کو جا پہنچا جس کا انفاع بہرحال ناگزیر ہے۔ لیکن اس تمام عمل ردعمل میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بلا لحاظ توازن قوت بے قصور اور معصوم جانوں کا مزید اتلاف نہ ہو۔ امن کے نام پر جنگی جنون انسانیت کے لئے ناقابل قبول ہے۔ قرآن اس پر شاہد ہے کہ ’’جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا۔ (المائدہ 5 آیت 32)
حقوق انسانی کا یہ چارٹر فرمان ایزدی ہے جو ساری انسانیت کی بقاء کا اصل اصول ہے اور جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کل تعلیمات میں انسانی خون کی کتنی اہمیت و تکریم ہے حتیٰ کہ حق و باطل کی معرکہ آرائی میں بھی حق زندگی کا دفاع مقدم ہے اور بدلہ لینے میں بھی زیادتی سے مناہی ہے۔ (البقرہ 2، آیت144) فلسطین کی مقدس سرزمین پر گزشتہ 75 سالوں میں بہت جنگیں ہو چکیں اور بہت خون بہہ چکا، کچھ حاصل نہ ہوا سو ائے تباہی اور پناہ گزینی کے اور فلسطینی اپنے ہی ملک میں اجنبی اور STATELESS بنے رہے۔ بے یار و مددگار۔ سچ ہے کہ تاریکی میں سایہ بھی اپنا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ بین الاقوامی ادارے بڑی طاقتوں کے آلۂ کار ہیں۔ بقول اقبال ’’بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند‘‘ اور مسلم دنیا خود ہی بے بس اور انتشار کا شکار ہے۔ ایسے میں شکست و ریخت سے دوچار فلسطینی خود سے ہی سنبھالا لیں اور اپنے آپ ہی جاریہ قضیہ کا ایک معروضی اور قابل عمل حل کر نکالیں اور زمینی حقیقت سے صرف نظر نہ کریں۔ فلسطینی کاز کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فتح کا نشان اب ایک صلح کل مظبوط اور نمائندہ قیادت کے ہاتھ میں رہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ بالآخر صلح کاری کو ہی اپنانا پڑے گا اور ایک دیرپا اور بیش قیمت امن کے لئے صلح کا کوئی متبادل نہیں، لیکن اس کے لئے صبر لازمی عنصر ہے جس کی ہدایت قرآن حکیم میں توارد کے ساتھ آئی ہے کہ یہی کامیابی کی کلید ہے اور بارگاہ ایزدی میں دعا فرمائیں کہ رب انی مغلوب فانتصر (القمر 54، آیت 10) (اے میرے رب) میں بے بس ہوں، میری مدد فرما‘‘۔ انشاء اللہ کامیابی قدم چومے گی۔