فینانس بل : دستور کی کھلی خلاف ورزی!

   

پی چدمبرم
پارلیمان کا ایوان جہاں اپوزیشن کی صفیں خالی ہوں، وہاں تقریر کرنا واقعی ہمت کا کام ہے۔ ٹھیک یہی ہمت کا مظاہرہ وزیر فینانس نرملا سیتارمن نے 23 جولائی 2019ء کو راجیہ سبھا میں کیا! انھوں نے اپنا پہلا فینانس بل متعارف کرایا، راجیہ سبھا (اپوزیشن سے عاری) نے اس بل پر ’غوروخٖوض کیا اور لوٹا دیا‘، اور یوں ہندوستانی معیشت کے معاملے میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ مبارک ہو، فینانس منسٹر!
بجٹ کے تعلق سے جس طرح کافی اہم سوالات اٹھائے گئے، اسی طرح فینانس بل کا بھی معاملہ ہے۔
ڈھٹائی سے خلاف ورزی
اول، یہ بل دستوری طور پر مشکوک ہے۔ حکومت کو قانون کی عدم تعمیل میں کچھ عار نہیں۔ جسٹس پٹاسوامی نے سپریم کورٹ کی طرف سے رولنگ دی ہے کہ رقمی بل کیلئے لازمی ہے کہ دستور کے آرٹیکل 110 میں مصرحہ شرائط کی سختی سے تعمیل کرے۔ اس طرح کے بل میں صرف وہی دفعات شامل ہونا چاہئیں جن کا تعلق ٹیکس اور ہندوستان کے محفوظ؍ منجمد فنڈ (سی ایف آئی)، یا پھر پبلک اکاؤنٹ آف انڈیا میں رقم ڈالنے یا نکالنے سے ہو۔ پھر بھی، حکومت نے فینانس (نمبر 2) بل 2019ء میں ایسے فقرے شامل کردیئے جو دستور کے آرٹیکل 110 کے تحت ممنوع ہیں۔ اس بل کا چیاپٹر VI جس کا عنوان ’متفرق‘ ہے، ایسے فقروں پر مشتمل ہے جو کئی قوانین میں ترمیم کرتے ہیں جیسے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ، انشورنس ایکٹ، سکیورٹیز کنٹراکٹس (ریگولیشن) ایکٹ، اور کئی دیگر۔ میں نے کم از کم دس قوانین شمار کئے جن میں ترمیم لائی گئی۔ نہ متعلقہ ایکٹس، نہ ہی ترامیم کا آرٹیکل 110 میں متذکرہ مقاصد سے کچھ بھی لینا دینا ہے۔کوئی تو ضرور فینانس (نمبر 2) بل 2019ء کی دستوری درستی کے جواز کو چیلنج کرے گا۔ مجھے حیرت ہے کہ حکومت فینانس اور معیشت کے بارے میں اپنے سب سے اہم بل پر جوکھم مول لینے کیلئے محض اس لئے آمادہ ہے کہ بعض غیرمالیاتی قوانین میں قابل اعتراض ترامیم پر مباحث کو ٹالا جائے!
سست روی سے یکایک جست!
دوم، کسی نے بھی میری تحریر بضمن 5، 10، 20 ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت (دی انڈین اکسپریس، 21 جولائی 2019ء) میں دیئے گئے اعداد و شمار میں کوئی خامی نہیں پائی۔ حکومت نے آرزومندانہ، پُرجوش ہرگز نہیں، ریونیو ٹارگٹس مقرر کرلئے ہیں۔ حقیقی شرح ترقی جو 2018-19ء میں حاصل کی گئی اور نئے سال کیلئے پیش کردہ شرح ترقی (2018-19ء کے حقائق پر مبنی تخمینہ برائے 2019-20ء) یوں ہیں:

شرح ترقی
بہ اعتبار تناسب (%)

2018-19
2019-20
انکم ٹیکس
7.16
23.25
کسٹمز
-8.60
32.20
یونین اکسائز
0.06
15.55
جی ایس ٹی
3.38
44.98
حکومت کس طرح ایسی اونچی شرح والے ریونیو ٹارگٹس حاصل کرنے کی تجویز پیش کرسکتی ہے؟ خاص کر، جب آئی ایم ایف، اے ڈی بی اور آر بی آئی نے ہندوستان کی جی ڈی پی شرح ترقی کو اپنے تخمینے میں گھٹا کر 7.0 فی صد اور اسی طرح عالمی شرح ترقی کو 3.2 فی صد کیا ہے۔ ہر ماہر معاشیات جسے انڈین اکانمی کی جانکاری ہو (اس فہرست میں تازہ ترین ڈاکٹر کوشک باسو ہیں) اس نے مزید سست روی کا انتباہ دیا ہے … یعنی 2018-19ء کے چاروں سہ ماہی مدتوں میں دیکھے گئے رجحان (8.0، 7.0، 6.6 اور 5.8 فی صد) کا تسلسل رہے گا۔ حکومت کو کیونکر توقع ہے کہ ریونیو وصولیات میں اچھال کے ساتھ یہ اونچی دو ہندسی شرحوں تک پہنچ جائیں گے جبکہ 2018-19ء میں واحد ہندسی روش تھی؟مجھے شبہ ہے کہ حکومت موجودہ ٹیکس دہندگان کو نچوڑے گی۔ حکومت پہلے انکم ٹیکس، جی ایس ٹی او دیگر ٹیکس آفیسرز کو غیرمعمولی اختیارات عطا کرچکی ہے۔ اب مزید نوٹسیں جاری ہوں گی، شخصی حاضری کیلئے مزید سمن نکلیں گے، مزید گرفتاریاں ہوں گی، مزید مقدمات چلیں گے، مزید پنالٹی آرڈرز ہوں گے، سخت تخمینے کے مزید احکام جاری ہوں گے، اپیلوں کا اخراج مزید بڑھے گا … مختصر یہ کہ ٹیکس دہندہ کو مزید ہراسانی سے گزرنا پڑے گا۔
ریاستوں کی حصے سے محرومی
سوم، کیا ریاستوں کو ٹیکسوں میں اُن کا حصہ حاصل ہورہا ہے؟ چودہویں فینانس کمیشن نے مرکزی حکومت کی مجموعی ٹیکس آمدنی (جی ٹی آر) کا 42 فی صد حصہ ریاستوں کو عطا کیا۔ ایف ایف سی رپورٹ کو قبول کرلیا گیا۔ 42 فی صد حصہ ریاستوں کا دستوری حق اور مرکزی حکومت کا دستوری فرض بن گیا۔ ایف ایف سی ایوارڈ کا اطلاق 2015-16ء تا 2019-20ء کی مدت کیلئے ہے۔ اس ایوارڈ کے باوجود ریاستوں کے حصے میں فی الواقعی جو کچھ آیا، وہ کافی کم ہے، جیسا کہ درج ذیل جدول سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
سال
جی ٹی آر تناسب کے طور پر دی گئی رقم
2015-16
34.77
2016-17
35.43
2017-18
35.07
2018-19 (قطعی)
33.05
2019-20 (BE)
32.87
ٹارگٹ 42 فی صد حاصل نہ کرپانے کی وجہ ٹیکسوں پر سیس اور سرچارج کی وصولی میں فراخدلی ہے۔ ایف ایف سی ایوارڈ کا اطلاق سیس اور سرچارج پر نہیں ہوتا ہے اور انھیں ریاستوں کے ساتھ بانٹنا نہیں ہوتا ہے۔ یہ بڑی خرابی ہے۔دہری خرابی تب ہے جب مرکزی حکومت کی ٹیکس وصولیات اس کے بجٹ یا نظرثانی شدہ تخمینوں کے اعتبار سے کم ہوجاتے ہیں۔ 2018-19ء میں جی ٹی آر پر بجٹ تخمینہ 22,71,242 کروڑ روپئے تھا اور نظرثانی کے بعد 22,48,175 کروڑ روپئے ہوا، لیکن حقیقی وصولیات صرف 20,80,203 کروڑ روپئے ہوئے۔ جب مجموعہ ہی کمتر ہو تو ریاستوں کو بھی توقع سے کہیں کم حصہ حاصل ہوگا۔
برائے مہربانی فینانس منسٹر کا جواب دیکھئے؍ سنئے یا اس کی نقل ملاحظہ کیجئے۔ کیا انھوں نے ان مسائل میں سے کسی کی بھی یکسوئی کی جن کو میں نے اس تحریر میں اجاگر کیا ہے … یا راجیہ سبھا میں باقاعدہ مباحث ہوتے تو اٹھایا ہوتا؟