قانون سب کے لئے برابر ہے

   

(گزشتہ کا تسلسل)
(۴)قانونِ مملکت: اسلام اپنے قانون سزا کو مملکت قانون قرار دیتا ہے اور اس کا نفاذ بھی قانون مملکت ہی کی حیثیت سے کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلالحاظ جاہ و مرتبہ قانونِ سزا ہر مجرم پر یکساں نافذ العمل ہوتا ہے۔ ارتکاب جرم خواہ کوئی صاحب حیثیت شخص کرے یا کوئی بے حیثیت آدمی، دونوں قانون کی نظر میں برابر ہیں اور کسی بھی شخص کو اس قانون سے فرار کی گنجائش نہیں۔ کسی کے مرتبہ اور خاندان کا لحاظ کرنا یا مجرم پر ترس کھاکر کسی کی سفارش قبول کرنا، دونوں ممنوع ہیں۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملے میں رحم و شفقت کے جذبات تمہارے دامن گیر نہیں ہونے چاہئے‘‘۔ (سورۃ النور۔۲)
بنی مخزوم کی فاطمہ نامی ایک خاتون کو ان کے ارتکاب جرم پر جب انھیں ہاتھ کاٹنے کی سزا سنا دی گئی تو قریش میں کھلبلی مچ گئی۔ بارگاہ رسالت میں سفارش کرانے کے لئے نگاہ انتخاب حضرت اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ٹھہری، جن کے والد حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور والدہ ام ایمن تھیں، جن کی گود میں حضور ﷺ  نے پرورش پائی تھی، اس تعلق سے حضور ﷺ، حضرت اسامہ بن زید کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ جب انھوں نے سفارش کی تو سنتے ہی آپﷺ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا ’’کیا تم حدود اللہ کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سہم گئے اور معافی مانگی۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں کو جمع کرکے خطاب فرمایا کہ ’’تم سے پہلے جو قومیں تباہ ہوئی ہیں، ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی معمولی حیثیت کا آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دیتے تھے۔ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹے بغیر نہ چھوڑتا‘‘۔ (بخاری و مسلم)
قانون سزا، قانونِ مملکت قرار دیئے جانے سے حکومت پابند ہوجاتی ہے کہ اس کو بزور نافذ کرے، کیونکہ قوت ظاہرہ اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں رُوَیشد نامی ایک شخص کی دوکان اس وجہ سے جلا دی گئی کہ وہ خفیہ طورپر شراب بیچتا تھا۔ ایک اور موقع پر ایک پورا گاؤں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے جلا ڈالا گیا، کیونکہ وہاں خفیہ طریقے سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہوتا تھا۔
(۵) نفاذ من جانب ریاست:پانچواں رہنما اصول یہ ہے کہ سزاؤں کو نافذ کرنے کا حق صرف حکومت وقت کو حاصل ہے، کسی اور کو نہیں۔ نہ کوئی فرد کسی حیثیت سے سزائیں نافذ کرسکتا ہے اور نہ کوئی قبیلہ۔ بعض فقہاء نے غلاموں کی چند چھوٹی چھوٹی سزائیں نافذ کرنے کا اختیار ان کے آقاؤں کو بھی دیا ہے، لیکن فقہاء کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ سزاؤں کے نفاذ کا اختیار اور حق صرف حکومت وقت کو حاصل ہے۔ یہی درست بھی ہے اور اسی پر عمل بھی رہا ہے، عہد رسالت میں بھی اور خلافت راشدہ میں بھی اور یہی عمل آج ہر متمدن ملک میں رائج ہے۔ انتہائی پسماندہ ملک میں یہ اختیار قبائل کو بھی حاصل ہے، لیکن اسلام بہرحال اس کی اجازت نہیں دیتا۔
(۶) یقینی ثبوت: اسلام کے قانون تعزیرات کا چھٹا رہنما اصول یہ ہے کہ جب تک جرم یقینی طورپر ثابت نہ ہو جائے، کسی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ عرف عام کا ’’کافی‘‘ ثبوت اسلام کے نزدیک سزا دینے کے لئے ’’ناکافی‘‘ ہے۔ ثبوت یقینی ہونا چاہئے، جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ ہو، اسی وجہ سے شبہ کو معافی کا محرک قرار دیا گیا ہے اور شبہ کا ہر فائدہ ملزم کو پہنچایا جاتا ہے۔ ثبوت جرم میں ذرہ برابر بھی شبہ پایا جائے تو سزا نہیں دی جاسکتی، خواہ کتنے ہی معتبر ذرائع سے حکام کو کسی جرم کی اطلاع ملے۔ عہد رسالت میں مدینہ منورہ میں ایک ایسی عورت بھی تھی، جسے ہر خاص و عام جانتا تھا کہ وہ فاحشہ ہے، لیکن چوں کہ اس کے خلاف کوئی یقینی ثبوت نہیں تھا، اس لئے اسے کوئی سزا نہیں دی گئی، بلکہ خود حضور اکرم ﷺ نے اس کے بارے میں یہاں تک ارشاد فرمایا تھا کہ ’’میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرادیتا‘‘۔
اسی وجہ سے جمہور فقہاء محض حمل کو مستلزم سزا نہیں سمجھتے، جب تک اسلام کا مقرر کردہ نصاب شہادت (یعنی چار شاہد) پورا نہیں ہو جاتا، وہ صرف حمل کی بناء پر سزا دینے کا قائل نہیں۔ اس معاملے میں تنہا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اختلاف کرتے ہیں، ان کے نزدیک محض حمل بھی مستلزم سزا ہے، لیکن جمہور فقہاء کی دلیل یہ ہے کہ امکان عادی نہ سہی، لاکھوں درجے میں ایک امکان عقلی تو ہے کہ کسی طرح عورت کے رحم میں مرد کے نطفے کا کوئی جز پہنچ جائے اور وہ حاملہ ہوجائے۔ چنانچہ اتنے خفیف سے شبہ کا فائدہ بھی ملزمہ کو پہنچاتے ہیں۔ بات تو عقلاً یہی صحیح ہے، لیکن دل لگتی بات تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی معلوم ہوتی ہے۔
اسلام نے محتلف جرائم کے ثبوت کے لئے معیارات مختلف رکھے ہیں، جن میں سب سے اونچا معیار ثبوت زنا کے لئے رکھا گیا ہے، جو درج ذیل ہے: (۱) چار عینی شاہد گواہی دیں۔ اگر صرف قاضی بھی عینی شاہد ہو تب بھی سزا نہیں دی جاسکتی (۲) چاروں گواہ قابل اعتماد ہوں، یعنی ان میں سے کوئی پہلے کسی مقدمہ میں جھوٹا ثابت نہ ہوا ہو، خائن نہ ہو، سزا یافتہ نہ ہو، ملزم یا ملزمہ سے اس کی کوئی دشمنی نہ ہو (۳) چاروں یہ گواہی دیں کہ انھوں نے دونوں ملزمان کو بحالت مباشرت دیکھا ہے (۴) چاروں گواہ اس بات پر متفق ہوں کہ کب، کہاں، کس کو اور کس سے زنا کرتے دیکھا۔
اگر اس نصاب شہادت اور ان شرائط شہادت میں ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو سزا نہیں دی جاسکتی۔ جیسا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مقدمہ میں صرف ایک گواہ نے اتنا سا اختلاف کیا کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عورت کون تھی۔ بس صرف اسی نکتہ پر پوری شہادت ساقط ہو گئی، بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر حد قذف جاری ہو گئی۔ اسلام گواہی کے علاوہ مجرم کے از خود اقرار جرم کو بھی یقینی ثبوت سمجھتا ہے۔